Voice Of America Ki Yaadein (3)
وائس آف امریکا کی یادیں (3)

وائس آف امریکا میں ہماری ایک کولیگ مدثرہ منظر تھیں۔ پہلے ریڈیو پاکستان میں براڈکاسٹر تھیں۔ ان کے شوہر کا دل کا ٹرانسپلانٹ ہوا اور وہ نئے دل کے ساتھ کافی دن جیے۔ اب انتقال ہوچکا ہے۔
ایک بار وہ کسی ایسی تقریب میں شریک تھے جس میں وائس آف امریکا کے دوسرے لوگ بھی تھے۔ انھوں نے ایک ایسی بات کہی جو کئی افراد کو بری لگی اور بعد میں اس کا بار بار ذکر ہوا۔
انھوں نے کہا تھا، یہ وائس آف امریکا ہے جہاں بیٹھ کر آپ اتنے پیسے کمارہے ہیں۔ باہر نکلیں گے تو کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔ اتنے پیسے بھی نہیں ملیں گے۔
وہ سچ کہتے تھے۔ میں نے بھگتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وائس آف امریکا بھی کوئی خاص اچھی تنخواہ نہیں دیتا تھا۔
جب میں پاکستان میں تھا تو وی او اے نے 37 ڈالر گھنٹا تنخواہ کی پیشکش کی تھی۔ میرے پاس وہ خط موجود ہے۔ لیکن امریکا آنے کے بعد پتا چلا کہ کنٹریکٹ ملازمین کو کسی کمپنی کو بیچ دیا گیا ہے۔ اس کمپنی نے سب کنٹریکٹرز کے انٹرویوز کیے اور 25 ڈالر گھنٹا دینے کی پیشکش کی۔ اس پر بہت شور مچا۔ میں نے بھی انکار کردیا کہ جب زیادہ پیشکش پر بلایا گیا ہوں تو کم کیوں قبول کروں۔ کافی ردوکد کے بعد 37 تو نہیں، 30 کے آس پاس سودا ہوا۔ میں نے کافی احتجاج کیا۔
بعد میں ایک تحریک چلی اور اس کے نتیجے میں وہ کمپنی سب چھوڑ چھاڑ کے بھاگ نکلی۔ وائس آف امریکا نے کنٹریکٹرز کو پھر گود لے لیا۔ اس بار کسی کو 32، کسی کو 35 ڈالر گھنٹا ملے۔ مجھے یاد ہے کہ 2021 میں آخری تنخواہ 40 ڈالر گھنٹا ملی تھی۔
آپ 40 ڈالر سے حساب لگائیں تو مہینے کے پونے سات ہزار ڈالر بنتے ہیں۔ اس میں ٹیکس اور فیملی میڈیکل انشورنس نکال کر بس مکان کا کرایہ یا مورگیج اور راشن آسکتا ہے۔ گاڑی کی قسط، آٹو انشورنس، یوٹیلٹی بلز دے کر جیب میں کچھ نہیں بچتا۔ آگے کی زندگی کریڈٹ کارڈ کھینچتا ہے۔
وہ ہینڈ ٹو ماوتھ آمدن والی ملازمت ختم ہوئی تو چودہ طبق روشن ہوگئے۔ اوبر چلانا شروع کی اور دن میں دس دس، ویک اینڈ پر بارہ بارہ گھنٹے چلائی۔ جسم دکھ جاتا تھا لیکن ڈیڑھ سو ڈالر نہیں بنتے تھے۔ اوسطا پندرہ سترہ ڈالر، بہت اچھا دن ہوا تو بیس ڈالر گھنٹا۔ پیٹرول آپ کا۔ چار دن بعد سروس کروانا پڑتی تھی۔ وہ خرچہ الگ۔ مہینے میں انجن آئل بدلوانا پڑجاتا تھا، وہ الگ۔
کہاں 40 ڈالر میں گزارہ مشکل تھا اور کہاں اب 20 ڈالر بھی نہیں۔ اس شخص کی مایوسی کا اندازہ لگائیں جو 2017 میں پاکستان میں دس لاکھ ماہانہ کی ملازمت چھوڑ کر آیا ہو۔ کوویڈ کی عالمی وبا کا زور تھا اور دو سال تک ہمارے پاس میڈیکل انشورنس نہیں تھی۔
مجھے اب سانس میں سانس میں آیا ہے تو اس لیے کہ بیوی اور بچوں نے جاب شروع کردی۔ امریکا میں تنہا کمانے والا عام آدمی گھر نہیں چلاسکتا۔ بہرحال میں نے وہ وقت کاٹ لیا۔ لیکن بار بار مدثرہ کے شوہر کی بات یاد آتی تھی۔
وائس آف امریکا والے ان کی بات بھول گئے ہوں گے تو اب یاد آئے گی۔ روز یاد آئے گی۔ بار بار یاد آئے گی۔
اردو سروس کے چالیس بندوں میں سے تیس کے پاس پاکستانی ڈگری ہوگی۔ انھیں اب پتا چلے گا کہ وہ ڈگری کسی کام کی نہیں۔ چالیس پینتالیس ڈالر گھنٹا تنخواہ پر وہ خوش نہیں ہوتے ہوں گے۔ اب معلوم ہوگا کہ بیس ڈالر والی ملازمت بھی آسانی سے نہیں ملتی۔ وہ دوسروں کے انٹرویوز کرتے تھے۔ اب خود انٹرویو دیں گے تو اندازہ ہوگا کہ کسی کو مطمئن کتنا مشکل کام ہے۔
ایک سابق کولیگ کو اسکول کی ملازمت حاصل کرنے کا طریقہ بتانے کے لیے فون کیا۔ انھوں نے بیزاری سے کہا، اسکول میں کون پڑھائے۔ میں یونیورسٹیز میں اپلائی کروں گا۔ پاکستان کی ماسٹرز ڈگری پر یہ گمان وہی کرسکتا ہے جس پر ابھی حقیقت کا پہاڑ نہ ٹوٹا ہو۔ امریکا کی یونیورسٹیوں میں ایک آسامی نکلتی ہے تو ایک گھنٹے میں دو سو پی ایچ ڈی کرنے والے اپلائی کردیتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو لنکڈ ان دیکھ لیں۔
اس کہانی میں سبق یہ ہے کہ کبھی ایک ہنر پر اکتفا نہ کریں۔ ایک کام کے ماہر ہونے پر فخر نہ کریں۔ تھک کر یا مطمئن ہوکرنہ بیٹھیں۔ کچھ نہ کچھ نیا سیکھتے رہیں۔ تعلیمی قابلیت بڑھاتے رہیں۔ دنیا بدل رہی ہے۔ زندگی بھی ایک دم بدل جاتی ہے۔ رات کو آپ ڈائریکٹر سوتے ہیں۔ صبح بیروزگار اٹھتے ہیں۔