Voice Of America Ki Yaadein (2)
وائس آف امریکا کی یادیں (2)

ریڈیو بلیٹن نمٹ جاتا تو اسد نذیر صاحب پوچھتے، کھانے کے بارے میں کیا ارادہ ہے؟ میں کہتا، نیک ارادہ ہے۔ انجم گل اپنا ٹفن اٹھاکر مائیکرو ویو اوون کا رخ کرتے۔ بھائی اصفر امام بھی اپنا لنچ بکس سنبھالتے۔
اسد نذیر صاحب وائس آف امریکا میں ہمارے سینئر کولیگ تھے۔ اس سے پہلے ریڈیو پاکستان میں براڈکاسٹر رہے۔ اس دور کی ناقابل فراموش کہانیاں انھوں نے سنائیں لیکن میرے اصرار کے باوجود یادداشتیں لکھنے پر راضی نہیں ہوئے۔ ریڈیو پاکستان کے بعد کچھ عرصہ امریکی سفارت خانے کے تحت کسی دفتر میں کام کیا۔ پھر فیملی امیگریشن پر امریکا آئے تو وائس آف امریکا میں ملازمت مل گئی۔
اسد صاحب کا ایک تعارف یہ بھی ہے کہ وہ ممتاز ادیب ابوالحسن نغمی مرحوم کے بھانجے اور حبیب اشعر کے داماد ہیں۔ ایک ڈیڑھ سال پہلے وائس آف امریکا سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد اب خاندان کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں۔ لیکن میں ان دنوں کی بات کررہا ہوں جب وائس آف امریکا میں کام کرتا تھا۔ میری، انجم گل یا اصفر بھائی کی میز پر کھانا نہیں کھایا جاسکتا تھا۔ یہ بھی دلچسپ معاملہ تھا۔ کنٹریکٹ ملازمین کو چھوٹے کیوبیکل اور چھوٹی میزیں دی جاتی تھیں۔ مستقل ملازمین کے کیوبیکل اور میزیں بڑی ہوتی تھیں۔ عجیب طبقاتی نظام تھا۔
جب میں نے وی او اے جوائن کیا تو اردو سروس کے مبینہ نیوزروم پر قبرستان کا سا گمان ہوا۔ مجھے ایکسپریس، جنگ اور جیونیوز کے نیوزرومز کا تجربہ تھا جہاں اگر ہاہاکار نہ مچی ہو تو بھی شور شرابہ اور قہقہے گونجتے رہتے تھے۔ وی او اے میں لگتا تھا کہ کسی کو بلند آواز سے بات کرنا یا ہنسنا نہیں آتا۔ میری آواز اونچی پچ والی ہے۔ قہقہے روکنے کا طریقہ بھی نہیں آتا۔ وی او اے کے مُردے بہت جزبز ہوتے۔ کئی بار لوگوں نے میری ڈیسک پر آکر سمجھایا۔ کئی بار برابر کی ایرانی سروس کے لوگ شکایت کرنے آئے کہ یہ کون آدمی ہے۔ اسے چپ کرائیں۔
وائس آف امریکا میں کھانے بلکہ چائے کافی کا بھی سلسلہ نہیں تھا۔ کسی کو کھانا چاہیے تو باہر جائے اور قریبی ریسٹورنٹس سے لے آئے۔ میں نے کئی بار نیوز ڈائرکٹر امینڈا بینیٹ کو خود جاکر اپنا لنچ لاتے دیکھا۔ میں کھانا گھر سے لے جاتا تھا۔ اسے گرم کرکے ہم اسد صاحب کی میز پر بیٹھ جاتے۔ ہم یعنی اسد صاحب، اصفر بھائی، انجم گل اور میں۔ پھر دنیا جہاں کی باتیں ہوتے۔
انجم گل کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا اور وہ لاہور کے اخبارات اور سما نیوز میں کام کرچکے تھے۔ مسیحی تھے اور ہر سال باقاعدگی سے روزے رکھتے تھے۔ معلوم نہیں انھیں روزے ہی کہتے ہیں یا کچھ اور۔ اس میں وہ کھانا تو کھاتے تھے لیکن گوشت سے پرہیز کرتے۔ کھانے کے دوران اور بعد میں وہ لاہور کے قصے سنانا شروع کرتے تو اسد صاحب ٹوک دیتے، یار انجم باتیں کرو باتیں۔ قصے مت سناو۔ اس کے بعد ہم سب خوب زور سے ہنستے۔
انجم صاحب کا معمول تھا کہ اردو سروس میں کوئی نیا کولیگ رکھا جاتا یا کوئی دوست پاکستان سے آتا تو لنچ کے لیے باہر لے جاتے۔ اسد صاحب باہر نہیں جاتے تھے لیکن میں اور اصفر بھائی ایسی ہر دعوت میں شامل ہوتے۔ ایک بار میں نے بل ادا کردیا تو انجم صاحب بہت ناراض ہوئے۔ انھوں نے کہا، اس دعوت کا میزبان میں ہوتا ہوں۔ آپ نے مذموم سازش کے تحت میرا معمول خراب کیا ہے۔
اسد صاحب اور انجم گل، دونوں کو مطالعے کا بہت شوق تھا۔ میں نے انھیں ان کی پسند کی متعدد کتابیں دیں۔ شاید اسی لیے ہماری دوستی گہری تھی۔ انجم گل کو بازی گر، سب رنگ کہانیوں کے مجموعے اور سما میں ان کے سابق باس شاہد ملک صاحب کے خاکوں کی کتاب منگوا کر دی۔
میں انجم گل کو یاد کررہا ہوں اور یہ یاد کرکے ہنسی آرہی ہے کہ وہ جماعت اسلامی کو جماعی تے اسلامی کہتے تھے۔ ایسا وہ نام بگاڑنے کے لیے نہیں کہتے تھے۔ بس وہ ایسے ہی بولتے تھے۔ ان سے زیادہ شفاف دل کا آدمی وائس آف امریکا میں نہیں تھا۔ سازشوں کے گڑھ میں ایسے سادہ آدمی نے پتا نہیں کیسے سات آٹھ سال گزارے۔
ہم دونوں دوستوں کو ایک ساتھ وائس آف امریکا سے نکالا گیا۔ مجھے پہلے نکالا جاچکا تھا اور میں لڑ کے واپس گھسا تھا۔ منشی قسم کا سروس چیف میرے خلاف تھا اور مجھے علم تھا کہ نئے سال کے لیے میرے کنٹریکٹ کی تجدید نہیں ہوگی۔ لیکن انجم گل کو اپنے بارے میں گمان تک نہ ہوگا۔ اتفاق سے وہ ان دنوں چھٹیوں پر تھے جب فارغ کیے جانے کی ای میل آِئی۔ وہ انھوں نے کئی دن تک نہیں دیکھی۔ میں نے اپنی ملازمت ختم ہونے کا بتایا تو افسوس کا اظہار کیا اور تسلی دی۔ چند دن بعد فون کرکے بتایا کہ انھیں بھی نکال دیا گیا ہے۔
جیسے وائس آف امریکا کے سروس چیف اور تمام کولیگز نے میرا فون اٹھانا بند کردیا تھا، ویسے ہی انجم گل کا فون بھی کسی نے نہیں اٹھایا۔ انھوں نے اپنی بیوی کے فون سے دو تین خبیث لوگوں کو فون کیا جو انھوں نے دھوکے میں اٹھالیا۔ میں ہوتا تو شاید اس وقت غصے میں برا بھلا کہتا۔ لیکن انجم گل نے کہا، میں صرف شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا کہ اتنے سال ایک ساتھ کام کیا۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ سخت جان ہوں۔ وہ جھٹکا سہہ گیا۔ سخت جان انجم گل بھی تھے لیکن جرنلزم ان کی زندگی تھی۔ وہ چھوٹ گئی تو ان کا جی اچاٹ ہوگیا۔ جن دنوں میں اوبر چلا رہا تھا، وہ کسی بلڈنگ میں نائٹ سیکورٹی کی ڈیوٹی کررہے تھے۔ ایک دو بار میں ان سے ملنے میری لینڈ گیا۔ انھیں سخت بیزار پایا۔
اتفاق سے مجھے جارجیا کے ایک چینل میں جاب مل گئی۔ میں وہاں چلا گیا تو ملنا ممکن نہیں رہا۔ ایک دن اصفر بھائی نے فون کرکے بتایا کہ انجم گل اسپتال میں ہیں۔ پھیپھڑے ختم ہوگئے ہیں۔ یہی رمضان کے دن تھے۔ میں عید پر دو دن کی چھٹی لے آیا تو اسپتال گیا۔ وہاں انجم صاحب کو دیکھ کر دھک سے رہ گیا۔ ناک اور منہ میں نلکیاں لگی تھیں۔ بدن پر تاریں لپٹی تھیں۔ ایک مشین بگڑے ہوئے دل کی کیفیت بتارہی ہے۔ ان کی بہن وہاں موجود تھیں۔ وہ رو رہی تھیں۔ میں انھیں جھوٹی تسلی دے کر، آنسو چھپاتے ہوئے واپس چلا آیا۔ پھر موت کی خبر جارجیا میں سنی۔ جنازے میں نہیں جاسکا۔
انجم زندہ ہوتے تو آج ایک ایک کرکے وائس آف امریکا کے سابق کولیگز کو فون کررہے ہوتے۔ تسلیاں دیتے۔ حوصلہ بڑھاتے۔ اپنی مثال دیتے کہ دیکھو، مزے میں ہوں۔ بھلا چنگا ہوں، وائس آف امریکا کی نوکری چھوٹنے سے مر نہیں گیا۔
ہاں، وہ یہ نہیں کہہ سکتے۔ وائس آف امریکا چھوٹنے سے وہ واقعی مر گئے تھے۔