Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Quran Pak Ke Angrezi Tarajum

Quran Pak Ke Angrezi Tarajum

قرآن پاک کے انگریزی تراجم

نیویارک ریویو آف بکس کے تازہ شمارے میں قرآن کے دو نئے انگریزی ترجموں پر بے حد عمدہ تبصرہ چھپا ہے۔ اس مضمون کا عنوان بی ولڈرڈ ریپسوڈیز ہے۔ بی ولڈرڈ کے معنی ہیں الجھے ہوئے۔ ریپسوڈیز کا ایک مطلب ہے جذبات کا اظہار۔ قدیم یونان میں شاعری پڑھنے کو بھی ریپسوڈیز کہا جاتا تھا۔ بی ولڈرڈ ریپسوڈیز کا ترجمہ ہوا، الجھی ہوئی قرات۔

مضمون نگار روبن کریسویل ممتاز امریکی نقاد اور ژیل یونیورسٹی میں ادب کے استاد ہیں۔ پیرس ریویو میں شاعری کے ایڈیٹر ہیں۔ جدید عربی ادب کے ماہر اور کئی کتابوں کے مترجم ہیں۔

ان سے کہا تو یہی گیا ہوگا کہ قرآن کے نئے ترجموں پر ایک نظر ڈال لیں۔ لیکن چونکہ وہ نقاد اور پی ایچ ڈی کیے ہوئے محقق ہیں، اس لیے انھوں نے جہازی سائز کے چار صفحات کا تحقیقی مضمون لکھ ڈالا۔ اس میں ظہور اسلام سے بات شروع کی، قرآن کے اولین ترجموں کا ذکر کیا، قدیم یورپ میں اسلام دشمنی کا ہلکا سا اشارہ دیا اور تمام اہم انگریزی ترجموں کا پوسٹ مارٹم کردیا۔

مضمون کوئی پڑھنا چاہے تو انٹرنیٹ پر دستیاب ہے اور نہ ملے تو خادم فراہم کرسکتا ہے۔ لیکن ایک دو دلچسپ حصے یہاں بیان کردیتا ہوں۔ روبن نے لکھا کہ حضرت عمر اپنی جوانی میں ایک مثالی بت پرست تھے۔ جسمانی طور پر تسلط پسند، گرم مزاج اور جذباتی، شراب، جوئے اور شاعری کے بے حد شوقین۔ اسلام کے سخت دشمن تھے۔ لیکن ایک بار قرآن کی آیات سنیں تو بقول خود ان کے، دل نرم ہوا، آنسو جاری ہوئے اور اسلام میرے اندر داخل ہوگیا۔

روبن نے اس مثال کے بعد سیرت نگاروں کے حوالے سے لکھا کہ ابتدائی زمانے میں قرآن سننے والوں کا ایسا ہی حال ہوتا تھا۔ عربی نہ جاننے والے بھی متاثر ہوکر مسلمان ہوجاتے۔ لوگ آیات سن کر بے ہوش ہو جاتے تھے اور حد یہ کہ بعض افراد مر بھی گئے۔ مضمون میں ابو اسحاق الثعلبی کی کتاب قتلی القرآن کا بھی ذکر ہے۔ اس میں ان لوگوں کا احوال ہے جنھیں گویا قرآن نے قتل کردیا۔ میں نے یہ کتاب انٹرنیٹ آرکائیو پر عربی میں دیکھی ہے۔ اردو ترجمہ بھی ہوا ہوگا۔

روبن نے لکھا کہ جب قرآن کے دوسری زبانوں، خاص طور پر انگریزی میں ترجمے ہوئے تو کسی پر ایسی کیفیت طاری نہیں ہوئی۔ ابتدائی ترجمے پادریوں نے کیے اور ان کا رویہ معاندانہ تھا۔ مارٹن لوتھر کنگ نے بہرحال قرآن کو ترجمہ کرنے کی حوصلہ افزائی کی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ ترک قریب تر آتے جارہے ہیں اور ان کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔

صدیوں تک غیر مسلم ہی قرآن کے انگریزی ترجمے کرتے رہے۔ جب انگریز برصغیر آئے اور ہندوستانی مسلمانوں نے انگریزی سیکھی تو انھوں نے اس جانب توجہ دی۔ اولین ترجموں میں سے ایک محمد علی نے کیا جو 1917 میں چھپا۔ یہ یورپ اور امریکا پہنچا اور الائیجاہ محمد اور ان کی نیشن آف اسلام نے قبول کیا۔

لیکن ایک منٹ، الباکستانی اسے کسی مسلمان کا ترجمہ نہیں مانیں گے کیونکہ محمد علی کا تعلق احمدی لاہوری گروپ سے تھا۔ لندن میں احمدیوں کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے خطبے میں محمد علی کا ترجمہ سنایا جاتا تھا۔ وہاں ایک برطانوی نومسلم امام محمد مرمادوک پکتھل تھے۔ وہ بڑی اعلی شے تھے۔ چرچل کے اسکول فیلو رہے، گاندھی کے قریبی دوست بنے، سلطنت عثمانیہ کی پرجوش حمایت کی، مصر سمیت مشرق وسطی میں خوب گھومے اور اس تجربے کی بنیاد پر ناول لکھے۔

پکتھل محمد علی کے پرستار تھے لیکن پھر انھوں نے خود قرآن کا ترجمہ کیا۔ نظام دکن نے غالباََ مالی تعاون فراہم کیا۔ پکتھل نے ترجمہ کرکے جامعہ الازہر والوں کو دکھایا تاکہ معتبر ہوجائے۔ یہ 1929 کی بات ہے۔ الازہر والے لے کر بیٹھ گئے اور پھر مسترد کردیا کہ یہ ترجمہ چھپنے سے امت میں نفاق ہوگا۔ اس سے چار سال پہلے مصری حکام محمد علی کا ترجمہ ضبط کرچکے تھے۔ الازہر نے فتوی دیا تھا کہ جہاں بھی وہ ترجمہ نظر آئے، اسے جلادیا جائے۔

پکتھل نے الازہر کی مخالفت کے باوجود اپنا ترجمہ چھپوادیا اور وہ اب بھی مقبول ہے۔ روبن نے اس کے ساتھ کئی دوسرے تراجم کا ذکر کیا اور ان کی خوبیاں اور خامیاں بیان کیں۔ عبداللہ یوسف علی کے ترجمے کو سب سے مقبول قرار دیا۔ آخر میں ان دو ترجموں کا ذکر آیا جن کے لیے یہ تحریر لکھی گئی۔ ایک کا عنوان دا قرآن، اے ورس ٹرانسلیشن ہے جو محمد علی حبیب اور بروس بی لارنس کی کاوش ہے۔ دوسری کا نام دا ڈیووشنل قرآن، بی لویڈ سوراز اینڈ ورسز ہے اور شوکت ایم توراوا نے ترجمہ کیا ہے۔ روبن کا مدعا یہ ہے کہ قرآن کی عربی تلاوت سن کر لوگوں پر جو حال طاری ہوجاتا ہے، وہ انگریزی ترجمے سے نہیں ہوتا، حالانکہ مترجمین نے اسے شاعرانہ پیرایہ اظہار دینے کی بہت کوششیں کیں۔

اصل بات یہ ہے، جو مجھے اب انگریزی شاعری پڑھتے اور پڑھاتے ہوئے سمجھ آگئی ہے، کہ ہماری اردو عربی فارسی شاعری قافیوں پر چلتی ہے۔ قرآن میں بھی یہ کام بہت زیادہ ہے۔ انگریزی اور مغربی شاعری کا مزاج مختلف ہے۔ روبن نے مختلف تراجم سے چند ایک آیات کی مثالیں نکال کر پیش کی ہیں کہ انگریزی میں قافیہ بندی کے باوجود بات نہیں بن پاتی۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed