Monday, 10 February 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Nai Kitaben

Nai Kitaben

نئی کتابیں

بعض پاکستانی اخبارات میں کتابوں پر تبصرے چھپتے رہتے ہیں۔ خیر، تبصرے کے لیے پڑھنا پڑتا ہے اور پڑھتا کون ہے۔ یوں کہیں کہ کتابوں کا تعارف چھپ جاتا ہے۔ لیکن یہ تعارف بھی عموماََ کتابوں کی اشاعت کے بعد شائع کیا جاتا ہے۔ امریکی اخبارات میں باقاعدگی سے ان کتابوں کا تعارف چھپتا ہے جو اگلے ماہ شائع ہونے والی ہوں۔ چھپنے کے بعد صحیح والے تبصرے کیے جاتے ہیں۔ نیویارک ٹائمز سوا سو سال سے کتابوں پر تبصرے چھاپ رہا ہے۔ ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ کسی کتاب یا ادیب کو کوئی قابل ذکر انعام ملا ہے اور اس کا ذکر اس اخبار میں پہلے نہ چھپا ہو۔

میں نئی کتابوں سے واقف رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ فروری میں جو نئی کتابیں آنے والی ہیں، ان میں تین عمدہ آپ بیتیاں شامل ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ کو بھی ان میں دلچسپی محسوس ہو۔

ایک کا نام سورس کوڈ ہے۔ اس نام سے اندازہ ہوجانا چاہیے کہ کسی ٹیکنالوجسٹ کی کہانی ہے۔ کسی معمولی ٹیکنالوجسٹ نہیں، یہ بل گیٹس کی آپ بیتی ہے۔ وہ پہلے کئی کتابیں لکھ چکے ہیں اور ان کی زندگی کے بارے میں بھی لوگ کافی کچھ جانتے ہیں۔ لیکن خود انھوں نے پہلی بار آپ بیتی لکھی ہے۔ دراصل وہ آپ بیتیوں کی سیریز لکھ رہے ہیں اور یہ پہلی کڑی ہے جس میں انھوں نے صرف بچپن اور نوجوانی کا ذکر کیا ہے۔

نیویارک ٹائمز کے ایک تبصرہ نگار کو کتاب بازار میں آنے سے پہلے ایک کاپی مل گئی تھی اس لیے اس پر باقاعدہ تبصرہ بھی چھپ چکا ہے۔ اس سے مجھے یہ کتاب قابل مطالعہ لگ رہی ہے۔ بل گیٹس کا کہنا ہے کہ وہ طالب علمی کے زمانے میں ریاضی میں بہت اچھے تھے۔ ریاضی نے انھیں یہ اعتماد دیا کہ دنیا عقلی بنیادوں پر چلتی ہے اور آپ اپنا دماغ استعمال کریں تو تمام سولات کے جواب بوجھ سکتے ہیں۔ گیٹس نے کہا کہ وہ نو سال کی عمر میں ایسے سوال اٹھانے لگے تھے جن سے بڑے عاجز آجاتے۔ ان سوالات، جواب تلاش کرنے کی لگن اور مطالعے کے شوق نے انھیں غیر معمولی نوجوان بنادیا۔ وہ بیس سال کی عمر میں ہارورڈ یونیورسٹی کے طالب علم تھے جب انھوں نے مائیکروسافٹ قائم کی۔

یہ کتاب آج سے 45 سال پہلے یعنی 1980 پر آکر ختم ہوجاتی ہے۔ باقی کی کہانی بعد کی کتابوں میں آئے گی۔ لیکن مجھے خیال آیا کہ گیٹس نے آپ بیتی پہلے کیوں نہیں لکھی اور اب کیوں لکھنے بیٹھ گئے۔ ہوسکتا ہے کہ طلاق کے بعد انھوں نے اس بارے میں سوچا ہو اور فرصت بھی یقیناََ زیادہ ہوگی۔

فروری میں جس دوسری قابل ذکر آپ بیتی کا انتظار کیا جارہا ہے، وہ ناول نگار حنیف قریشی کی شیٹرڈ ہے۔ وہ تین سال پہلے گر کے زخمی اور تقریباََ مفلوج ہوگئے تھے۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ اس حادثے کے بعد انھوں نے اپنے خیالات کو املا کرانا شروع کردیا تھا اور غالباََ ان کی بیوی یا کوئی رشتے دار وہ سب سوشل میڈیا پر شئیر کردیتا تھا۔ اسپتال کے بستر سے لکھوائی گئی وہ تحریریں اب جمع کرکے شائع کی جارہی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ کتاب سلمان رشدی کی آپ بیتی نائف جیسی ہوگی جو انھوں نے قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے بعد لکھی ہے۔ رشدی کے فکشن پر بہت سے لوگ تنقید کرتے ہیں لیکن ان کا نان فکشن دلچسپ ہوتا ہے۔

تیسری کتاب کا عنوان مظہر الاسلام کی کتابوں جیسا ہے۔ ان کی نئی کتاب کا نام ہے، زندگی نے مڑ کر شیطان کے قاتل کو دیکھا اور مسکرائی۔ سمجھ نہیں آتا کہ اس قسم کے عنوان کے بعد کچھ اور، مثلاََ کہانی یا ناول لکھنے کی ضرورت کیا رہ جاتی ہے۔ خیر، میں جس کتاب کا ذکر کرنا چاہ رہا تھا، اس کا عنوان ہے، ون ڈے ایوری ون ول ہیو آلویز بین اگینسٹ دس۔ اس کا ترجمہ ہوگا، ایک دن آئے گا جب ہر شخص ہمیشہ سے اس کے خلاف ہوگا۔ یہ عمر العکاظ کی آپ بیتی ہے جو عرب صحافی ہیں۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنا احوال بیان کرنے کے علاوہ حماس کے حملوں اور اسرائیل کی جوابی کاررواِئی پر مغرب کے ردعمل کا جائزہ بھی لیا ہے۔

Check Also

Ye Jagah Ab Bhi Mere Zehan Mein Kyun Hai?

By Muhammad Salahuddin