Mustard Karne Ka Haq Kyun Doon?
مسترد کرنے کا حق کیوں دوں؟
میں جب کسی موضوع پر کچھ لکھتا ہوں تو اس کے ایک ایک لفظ کا ذمے دار ہوتا ہوں۔ تمام حوالے صرف پڑھتا نہیں بلکہ پہلے حاصل کرتا ہوں۔ کتاب دستیاب ہو تو خرید لیتا ہوں ورنہ لائبریری جاکر نقل بنواتا ہوں۔ امریکا میں یہ غیر معمولی سہولت ہے کہ ملک کے کسی بھی شہر میں کوئی کتاب دستیاب ہو تو آپ اپنی لائبریری میں منگواسکتے ہیں۔
حوالے جمع کرکے اسلامی تاریخ اور قرآنیات پر لکھنا کتنا دشوار ہے، عام آدمی تصور نہیں کرسکتا۔ مسلمان ملکوں کے کتب خانے کوئی تعاون نہیں کرتے۔ یورپی لائبریریوں میں ہزاروں کتابیں آن لائن دستیاب ہیں لیکن جو اصل مواد ہے، اس کے لیے درخواست کرنا پڑتی ہے۔ بعض اوقات ایک کتاب کی ڈیجیٹل کاپی حاصل کرنے کے لیے سیکڑوں یورو پیشگی دینا پڑتے ہیں۔ یقین نہ آَئے تو کوشش کرکے دیکھیں۔
کل میں نے ورقہ بن نوفل پر مختصر تحریر لکھی۔ اس کے لیے جوزف ازی کی کتاب پریسٹ اینڈ دا پروفٹ دیکھنا چاہتا تھا۔ اس پر ہنگامہ ہوا تھا اس لیے عربی کتاب اور انگریزی ترجمہ دونوں نایاب ہیں۔ پرانی کتابوں کی دکان سے ایک کاپی مل رہی ہے جس کی قیمت آٹھ سو ڈالر ہے۔
اسی طرح مجھے طبری پر ایک مضمون درکار تھا، جو ڈکشنری آف لٹریری بایوگرافی کی جلد 311 میں ہے۔ یہ جلد 500ء سے 925ء تک کے عربی ادب کے بارے میں ہے۔ نہ پرنٹڈ کتاب دستیاب ہے اور نہ پی ڈی ایف ملتی ہے۔ پرانی کتابوں کی دکان پر اس کی ایک کاپی ڈیڑھ سو ڈالر کی ہے۔
پیسہ اور وقت صرف کرکے چار جملے لکھتا ہوں اور پھر کوئی بھی شخص، جس نے نہ اصل کتاب پڑھی ہو، نہ اسلامی تاریخ دیکھی ہو، نہ تحقیق اور حوالوں کا علم ہو، نہایت آرام سے میرے لکھے کو مسترد کردیتا ہے۔ کسی عرب رائٹر کا جملہ پڑھا تھا کہ جانور کے سامنے من و سلوی رکھ دیں یا جاہل کے سامنے کتاب، دونوں کا ایک جیسا رویہ ہوتا ہے۔ انھیں بھوسہ ہی چاہیے۔
چند دن پہلے ڈاکٹر عرفان شہزاد کو قرآن کے قاہرہ نسخے کو جھٹلاتے دیکھا۔ انھوں نے یقینا ڈاکٹریٹ کی ہوئی ہے، وہ ایک یونیورسٹی کے استاد ہیں، اسلامیات کے دانشور ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ جامعہ الازہر کے قرآن کو مرتب کرنے والی بات افسانہ ہے۔ آپ دنیا کے تمام افراد کی آرا کو مسترد کرنے کا حق رکھتے ہیں لیکن ایک واقعے کو، یعنی حقائق کو کیسے جھٹلاسکتے ہیں۔ یا تو آپ کا علم مشکوک ہے یا آپ کے دماغ کو تالا لگا ہوا ہے۔
میں اپنی ہر تحریر کے ساتھ تمام حوالے اور کتابوں کی پی ڈی ایف پوسٹ کرسکتا ہوں لیکن نہیں کرتا۔ اس لیے کہ جو "دانشور" میری تحریر مسترد کرنے کے خواہش مند ہوں، وہ وقت اور پیسہ خرچ کریں، کتابیں اور حوالے ڈھونڈیں، پھر ان کے جواب لکھیں۔ مفت میں مسترد کرنے کا حق میں کیوں دوں؟