Mubashir Ali Zaidi Ka Kutub Khana
مبشر علی زیدی کا کتب خانہ
سال بھر سے فیس بک گروپ "مبشر علی زیدی کا کتب خانہ" ٹھنڈا پڑا ہے۔ اس کے باوجود اسے جوائن کرنے والوں کے نوٹی فکیشن آتے رہتے ہیں۔ مزید کتابیں نہ بھی آئیں تو جو دو ہزار ٹائٹل موجود ہیں، وہ مطالعے کے شوقین دوستوں کی تشنگی کم کرسکتے ہیں۔
مجھے آج کچھ وقت ملا تو پی ڈی ایف کتابوں کے ذخیرے کو جانچا۔ یاد آیا کہ ایک سو آپ بیتیوں کا فولڈر بنایا تھا لیکن کتب خانے میں پیش نہیں کرسکا تھا۔ آج اسے آپ لوڈ کردیا ہے۔
اردو میں ناول کا ذوق رکھنے والے کم ہیں، آپ بیتیاں پڑھنے والے زیادہ ہیں۔ پبلشرز بھی آپ بیتیاں اور یادیں چھاپنے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ بھائی راشد اشرف کو دیکھ لیں جو دو سو آپ بیتیاں چھاپ چکے ہیں۔ بھائی زاہد کاظمی کی لائبریری میں بھی سیکڑوں آپ بیتیاں ہیں اور وہ شائع بھی کرتے ہیں۔
جو سو آپ بیتیاں میں نے ایک جگہ جمع کردی ہیں، ان میں ادیب شاعر زیادہ ہیں لیکن دوسرے شعبوں کے لوگ بھی ہیں۔ بادشاہ اور فوجی ڈکٹیٹر بھی، سیاسی رہنما اور بیوروکریٹس بھی، تاریخ داں اور سیاح بھی، جیل کی ہوا کھانے والے بھی، آپ بیتیوں کے تراجم بھی ہیں اور خواتین کی بھی خاصی شرکت ہے۔
کئی افراد ایسے ہیں جنھوں نے ایک سے زیادہ بار آپ بیتی لکھی۔ میں نے اس میں ایک ہی کتاب شامل کی ہے۔ باقی بعد میں کبھی دیکھیں گے۔ گورکی اور سلطان جہاں بیگم کی آپ بیتیاں تین تین حصوں میں تھیں۔ انھیں ایک فائل میں یکجا کرنے کے بجائے الگ رکھا ہے۔
بعض کتابیں ایسی ہیں جو آپ بیتی کے علاوہ کسی اور خانے میں بھی فٹ کی جاسکتی ہیں۔ مثلا کرنل محمد خان کی بجنگ آمد کو مزاح میں اور مختار مسعود کی لوح ایام کو سفرنامہ تو نہیں، ایران کا قیام نامہ کہا جاسکتا ہے۔ لیکن میں نے انھیں آپ بیتیوں میں رکھا ہے۔ بجنگ آمد کو اس لیے کہ مشتاق احمد یوسفی کی زرگزشت بھی مزاح ہوتے ہوئے آپ بیتی ہے۔ لوح ایام کو اس لیے کہ جعفر تھانیسری کی کالاپانی کے قیام یا قید کو آپ بیتی تسلیم کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں مشاہیر کی آپ بیتیاں گھوسٹ رائیٹر لکھتے ہیں یا کم از کم لکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ اس کی دیکھا دیکھی ایک صنف پیدا ہوئی ہے جس میں رائیٹر کسی ممدوح کی تحریروں یا حالات سے اس کی "آپ بیتی" بنادیتے ہیں۔ اس مجموعے میں غالب، میر اور علامہ اقبال کی ایسی آپ بیتیاں شامل ہیں۔
ایک سو آپ بیتیاں کافی زیادہ ہوتی ہیں۔ شاید ہی کوئی دوست یہ دعوی کرسکے کہ اس نے یہ تمام کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔ میں نے نصف سے زیادہ پڑھی ہوئی ہیں لیکن یہ کام چند ہفتوں یا مہینوں میں نہیں، تیس سال میں ہوا ہے۔ جن لوگوں کو آپ بیتیاں پڑھنے کا شوق ہے، انھوں نے بھی بہت سی پڑھی ہوئی ہوں گی۔ لیکن ایسی بھی ضرور مل جائیں گی جو ان کی نظر سے نہیں گزری ہوں گی۔
چند بہت عمدہ آپ بیتیاں ایسی ہیں جو میں نے پڑھی ہیں لیکن ان کی پی ڈی ایف فی الحال میرے پاس نہیں۔ ان میں ہوش بلگرامی کی مشاہدات، ساقی فاروقی کی آپ بیتی پاپ بیتی اور خلیق ابراہیم خلیق کی منزلیں گرد کے مانند شامل ہیں۔ آل احمد سرور، میرزا ادیب، اسد محمد خان، اکرام اللہ، حبیب جالب، وزیر آغا، الطاف گوہر، کشور ناہید، ملکہ پکھراج اور شیخ ایاز کی آپ بیتیاں بھی اس بار رہ گئیں۔ لیکن خیر، اگلی بار سہی۔ یار زندہ صحبت باقی۔
اگر کسی کو کتب خانے کا ایڈرس یاد نہیں رہا تو میرے پروفائل پیج سے لے سکتے ہیں۔