Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Mister AD Tahir

Mister AD Tahir

مسٹر اے ڈی طاہر

ابھی میں نے بی کام نہیں کیا تھا کہ چھوٹی موٹی ملازمتیں کرنا شروع کردیں۔ بابا حبیب بینک پلازا کے قریب نیشنل بینک کی ایک برانچ میں کام کرتے تھے۔ وہاں ایک ٹیکسٹائل کمپنی سفٹیک کا اکاؤنٹ تھا اور اس کے ڈائریکٹر اظہار صاحب اکثر برانچ آتے تھے۔ بابا نے ان سے کہا کہ کوئی آسامی ہو تو میرے بیٹے کو رکھ لیں۔ انھوں نے مجھے پندرہ سو ماہوار پر جاب دے دی۔

جناح کارڈیو کے عقب میں ہاکی کلب آف پاکستان اسٹیڈیم ہے۔ اس کی دوسری منزل پر سفٹیک کا ہیڈآفس تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس کے سامنے خواتین کے جریدے شی کا دفتر تھا۔ ویسے تو میرا کام کمپنی کے چیف اکاونٹنٹ کی معاونت تھا۔ لیکن اظہار صاحب نے بینک کے کام بھی میرے سپرد کردیے تاکہ ان کی جان چھوٹے۔ میں کبھی کیش جمع کروا آتا، کبھی چیک جمع کرواتا، کبھی پے آرڈر بنواتا۔

بابا کی برانچ میں ایک صاحب گڈون کیپر تھے۔ جو اے ڈی طاہر کے نام سے مشہور تھے۔ اصل نام اللہ دتہ تھا۔ لیکن وہ اس پر شرمندگی محسوس کرتے تھے۔ اللہ دتہ کو انھوں نے اے ڈی بنالیا اور طاہر نام خود رکھ لیا۔ گڈون کیپر کی پوزیشن پتا نہیں اب ہوتی ہے یا نہیں۔ شاید یہ کلرک سے ایک درجہ کم کا عہدہ تھا۔ تنخواہ قلیل ہوتی تھی۔ لیکن اے ڈی طاہر بینک منیجر سے بڑی گاڑی میں دفتر آتے تھے۔ وہ گاڑی بھی باہر سڑک پر نہیں، بلڈنگ کے اندر پارکنگ میں کھڑی کی جاتی تھی۔ ظاہر ہے کہ وہ پیٹرول اور پارکنگ کا خرچہ اٹھاسکتے تھے۔

میں نہیں جانتا کہ گڈون کیپرز کیا کام کرتے تھے۔ لیکن اتنا معلوم ہے کہ اس برانچ کی اکاؤنٹ ہولڈر کمپنیاں اے ڈی طاہر کو ماہانہ لگی بندھی رقم رشوت میں دیتی تھیں۔ سفٹیک کا معاملہ یہ بھی تھا کہ اس کا اکاؤنٹ اکثر خالی رہتا تھا اور اوورڈرافٹ ہو جاتا تھا۔ اس کی حد اگر پانچ لاکھ تھی تو وہ بھی کراس ہو جاتی تھی۔ پھر اظہار صاحب برانچ آتے اور افسروں کی خوشامد کرکے یا رشوت دے کر چیک کلئیر کرواتے۔

ایک بار دفتر میں مجھے دو چیک دیے گئے۔ ایک ٹرانسفر کا تھا اور دوسرا اے ڈی طاہر کے نام تھا۔ مجھے یاد ہے کہ انھیں ماہانہ پانچ ہزار روپے بذریعہ چیک دیے جاتے تھے۔ 1994 میں یہ کافی مناسب رقم تھی جبکہ میری تنخواہ پندرہ سو تھی۔

ان دنوں بینک میں ایک دو ہی کمپیوٹر ہوتے تھے۔ اے ڈی طاہر اس کمپیوٹر پر بیٹھتے تھے۔ جس پر ٹرانزیکشنز ہوتی تھیں۔ میں نے انھیں پہلا چیک دیا۔ انھوں نے سفٹیک کا اکاؤنٹ دیکھ کر بتایا، اس میں پیسے نہیں ہیں اور اوورڈرافٹ لمٹ بھی ختم ہوچکی ہے۔ میں نے وہ چیک واپس لیا اور دوسرا چیک دیا۔ جو انھیں کے نام تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ رشوت والا چیک تھا اور ان کے دل میں چور تھا۔ وہ سمجھے کہ میں نے چیک دے کر ان پر طنز کیا ہے کہ اکاونٹ خالی ہے تو کیا ہوا، اپنی رشوت وصول کرو۔

اے ڈی طاہر نے ہنگامہ مچادیا۔ پہلے بابا سے شکایت کی، پھر اظہار صاحب کو فون کردیا۔ مجھے دونوں سے ڈانٹ پڑی۔ میں کافی حیران ہوا کہ اول تو میں نے کچھ کیا نہیں، دوسرے، کیا بھی ہو تو رشوت کھانے والا غیرت کیسے کھاسکتا ہے۔

چند ماہ بعد میں نے وہ جاب چھوڑ دی اور شاید کچھ عرصے بعد وہ کمپنی ہی بند ہوگئی۔ بیس سال بعد میں کسی کام سے وہاں سے گزرا تو خیال آیا کہ ایک نظر پرانے دفتر پر ڈال لوں۔ سیڑھیاں چڑھ کر دیکھا، وہاں اب کسی اخبار کا دفتر تھا۔

بابا 1997 میں ریٹائر ہو گئے، لیکن پینشن لینے اسی برانچ جاتے رہے۔ انتقال سے کچھ عرصہ پہلے انھوں نے پوچھا، کیا تمھیں اے ڈی طاہر یاد ہے؟ میں نے کہا، اس منحوس کو کیسے بھول سکتا ہوں۔ بابا نے بتایا، آج کل وہ ہیڈآفس میں مین برانچ کا منیجر لگا ہوا ہے۔ مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ جو شخص گڈون کیپر ہوتے ہوئے اپنی تنخواہ سے دوگنا رشوت ہر اکاؤنٹ ہولڈر کمپنی سے لیتا تھا، اس نے مین برانچ کا منیجر ہوکر کیسے ہاتھ مارے ہوں گے اور کتنا مال بنایا ہوگا، میں اندازہ کر سکتا تھا۔

جب لوگ سرکاری افسروں کی ایمان داری کے قصے سناتے ہیں تو میری آنکھوں میں اے ڈی طاہر کی صورت گھوم جاتی ہے۔

Check Also

Holocaust

By Mubashir Ali Zaidi