Kya Aap Ke Sath Kabhi Aisa Hua Hai?
کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا ہے؟
امی نے ایک بار میرے لیے معین اختر کی کامیڈی کا آڈیو کیسٹ خریدا تھا۔ میں تیسری یا چوتھی کلاس میں تھا۔ ہم سب گھر والے معین اختر کے پرستار تھے اور ان کے ٹی وی شوز شوق سے دیکھتے تھے۔
ربع صدی بعد میں جیو کے نیوزروم میں کام کررہا تھا کہ معین اختر کے انتقال کی خبر آئی۔ بریکنگ نیوز آن ائیر ہونے سے پہلے میں نے گھر فون ملا دیا کہ امی کو یہ خبر سناؤں۔ کال مل گئی۔ لیکن تب مجھے یاد آیا کہ امی کا تو پہلے ہی انتقال ہوچکا تھا۔
کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا ہے؟
یہ میری زندگی میں دوسری بار ہوا تھا۔ اس سے پہلے بھی ہوچکا تھا۔ ہمارے ایک ہی پھوپھا تھے جن کا نام محمد عسکری تھا۔ لمبے سے تھے اور جوانی میں کرکٹ کھیل چکے تھے۔ میں پانچ چھ سال کا تھا کہ ایک دن وہ صبح کے وقت ہمارے گھر آئے جو خلاف معمول بات تھی۔ انھوں نے فرمائش کی کہ ٹی وی کھولا جائے۔ اس زمانے میں نشریات شام میں شروع ہوتی تھی۔ ٹی وی کھولا تو انڈیا پاکستان کا کرکٹ ٹیسٹ جاری تھا۔ بشن سنگھ بیدی بولنگ کروارہے تھے۔ مجھے یاد ہے، پھوپھا عسکری نے کہا، یہ بہت کمال کا بولر ہے۔
دو عشروں بعد، جب میں اسپورٹس رائٹر کے طور پر کچھ نام پیدا کررہا تھا اور پی ٹی وی پر ایک کوئز بھی جیت چکا تھا، ایک دن کسی پرانے کرکٹ میگزین کا ایک شمارہ ملا۔ اس میں بیدی کا انٹرویو اور سرورق پر تصویر تھی۔ اسے دیکھ کر پہلا خیال مجھے یہ آیا کہ اسے پھوپھا عسکری کو دکھاؤں گا۔ پھر ایک جھٹکا لگا، یہ سوچ کر کہ ان کا تو انتقال ہوئے مدت ہوئی۔
روزنامہ ایکسپریس کا 1998ء میں کراچی سے آغاز ہوا تو میں اسپورٹس رپورٹر کے طور پر بھرتی ہوا۔ کچھ عرصے بعد نائٹ ڈیسک پر چلا گیا جہاں طاہر نجمی صاحب سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ وہ بعد میں ایڈیٹر بن گئے تھے لیکن اس وقت نیوز ایڈیٹر تھے۔ قارئین کی نفسیات سے واقف ہونے کی وجہ سے وہ روزانہ کسی اداکارہ یا ماڈل کی پھڑکتی ہوئی تصویر منتخب کرکے بیک پیج پر لگواتے۔ جینیفر لوپز انھیں بھی پسند تھی اور ہم سب کی بھی ڈارلنگ تھی۔ اس کا فوٹو کئی بار چھاپا۔
آج نیویارک ٹائمز میں لوپز کے طلاق کی خبر دیکھی تو بے اختیار نجمی صاحب سے بات کرنے کو جی چاہا۔ یہ یاد آنے میں صدیوں جتنے طویل کئی لمحات لگے کہ ان کا تو انتقال ہوچکا ہے۔