Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Josh Sahab

Josh Sahab

جوش صاحب

جوش صاحب آج بظاہر دہریے نظر آتے ہیں مگر یہ کٹر شیعہ بھی تو ساتھ ہی ہیں۔ کیا کوئی شیعہ دہریہ ہوسکتا ہے؟ آپ کہیں گے، ہو کیوں نہیں سکتا؟ جوش صاحب ہی کو دیکھ لیجیے۔ مگر یہ جواب تسلی بخش نہیں ہے۔ اس لیے کہ دہریہ کبھی شیعہ نہیں ہوسکتا۔ یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور امام حسینؑ کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ رسول کی عظمت کو بھی دل و جان سے مانتے ہیں۔ بس ذرا خدا سے دل لگی رکھتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ ہم جیسے ¾ مسلمان ہیں اور ¼ جو مسلمان نہیں ہیں تو اس قلابازی کی بھی ایک وجہ ہے۔

[جوش صاحب]

بچپن ہی میں یہ سنا تھا کہ لکھنئو میں ایک کافر نیاز نامی ہے جو ایسی باتیں لکھتا ہے جو اسلام کا بدترین دشمن بھی نہیں لکھ سکتا۔ اس وقت ان کے خلاف جلسے ہوتے تھے۔ تقریریں ہوتی تھیں۔ ایک ہنگامہ بپا تھا۔ مولانا سلیمان ندوی اور مولانا عبدالماجد دریابادی نیاز صاحب کو کافر اور ملحد قرار دے رہے تھے۔ کیا خبر تھی کہ جب اسی کافر اور ملحد سے ملاقات ہوگی تو وہ کئی عابدوں سے بہتر انسان ثابت ہوگا۔

[نیاز صاحب]

تانگے سے اترتے ہی دور سے السلام علیکم کے ساتھ ملاقات پھینک دیں گے۔ پھر یہ کہیں گے، دس روپے یا پندرہ روپے دوائی کے لیے دینا۔ جو دینے پڑتے ہیں۔ لوگ دوائی اس لیے پیتے ہیں کہ صحت یاب ہوں۔ لیکن یہ دوائی اس لیے پیتے ہیں کہ صحت اور خراب ہو۔ ان کی دوائی کا نام شراب ہے۔ پہلے یہ دوائی کو پیتے ہوں گے۔ اب تو دوائی انھیں پی چکی اور کسی دن بیٹھے بٹھائے ہم یہ سن لیں گے کہ منٹو صاحب کا انتقال ہوگیا۔

[منٹو صاحب]

شاید صاحب کی آواز تو اچھی نہ تھی مگر فن سے پوری طرح آگاہ تھے۔ تال سر کے استاد۔ جب پاکستان میں عسرت کی زندگی گزارنی پڑی تو ڈپٹی نذیر احمد کا پوتا گویّا بن کر پیٹ کے لیے ایندھن مہیا کرتا رہا۔ شوق روزگار بن گیا۔ پھر تو یہاں تک ہوا کہ پاکستان کی نمایندگی بیرون ملک بھی جاکر کی۔ پاکستان میوزک اکیڈمی کے صدر جو تھے۔

[شاہد صاحب]

حکیم صاحب ایک نامور رسالے کے ایڈیٹر ہی نہیں، نامور حکیم بھی ہیں۔ انھیں دکانداری نہیں آتی اس لیے مطب میں بھیڑ نہ لگاسکے۔ دیانت داری سے علاج کرتے ہیں۔ نہ کھال ادھیڑنے کی کوشش کرتے ہیں، نہ مریضوں کو لٹکانے کی۔ غریبوں سے حتی المقدور رعایت کرتے ہیں۔ امیروں سے ٹکا کے پیسے لیتے ہیں مگر کھال پھر بھی سلامت رہنے دیتے ہیں۔

[حکیم صاحب]

جگر صاحب ہر بات میں نفاست پسند ہیں۔ نفاست ان کی زندگی ہے یا یہ نفاست کی زندگی ہیں۔ بظاہر ان کی نفاست پر کوئی زندگی نہیں برستی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی نے انھیں پہلی بار انھیں کسی مشاعرے میں پڑھتے سنا تو اس نے بآواز بلند کہا کہ جتنے یہ بدصورت ہیں، پڑھتے ہوئے اتنے ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔

[جگر صاحب]

یہ اقتباسات ادبی جریدے نقوش کے ایڈیٹر محمد طفیل کے خاکوں کے ہیں۔ محمد طفیل صاھب نے جب نقوش نکالا تو یہ محض ان کا کاروبار تھا۔ وہ پبلشر تھے۔ احمد ندیم قاسمی اور ہاجرہ مسرور کو ایڈیٹر مقرر کیا۔ چند شماروں کے بعد انھوں نے رخصت لی تو وقار عظیم کو یہ ذمے داری سونپی۔ وہ بھی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے تو مجبورا خود ایڈیٹر بن گئے۔ اس کے بعد نقوش کو ایسا چلایا کہ اب اسے اردو کا اعلی ترین ادبی جریدہ کہا جاتا ہے۔

طفیل صاحب سکہ بند ادیب نہیں تھے لیکن انھوں نے خاکے لکھنا شروع کیے تو کمال کردیا۔ ادبی جریدے کے ایڈیٹر اور پبلشر ہونے کی وجہ سے بڑے ادیبوں اور شاعروں سے ان کی ملاقاتیں اور خط و کتابت تھی۔ اس میل ملاپ اور رابطوں کو انھوں نے کاغذ پر منتقل کیا تو شاہکار تخلیق ہوتے گئے۔ ان کے خاکوں کی آٹھ کتابیں شائع ہوئیں۔ ان کے نام کس قدر عمدہ ہیں: آپ، جناب، صاحب، محبی، مخدومی، محترم، مکرم، معظم۔

میں نے ان کتابوں کا ذکر سنا تھا لیکن کبھی کسی بک شاپ، بلکہ کراچی میں پرانی کتابوں کی دکانوں اور ٹھیلوں تک پر کوئی کتاب کبھی نہیں ملی۔ ایک دن کہیں سے طفیل صاحب کے بیٹے جاوید صاحب کا فون نمبر ملا۔ میں نے یونہی انھیں فون کرکے پوچھا، کیا آپ کے پاس طفیل صاحب کی کتابیں ہیں۔ جب انھوں نے کہا، ہاں، چند کاپیاں ہیں تو میں خوشی سے اچھل پڑا۔ انھیں پیسے بھیجے اور دو چار دن میں کتابیں گھر پہنچ گئیں۔ افسوس کہ کچھ ہی عرصے کے بعد جاوید صاحب کا انتقال ہوگیا۔

میں نے طفیل صاحب کے خاکوں کی آٹھوں کتابیں گوگل ڈرائیو کے فولڈر میں جمع کرکے لنک کتب خانے والے گروپ میں شئیر کردیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے ایک خاکہ بھی شروع کردیا تو تمام کتابیں پڑھے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔

طفیل صاحب نے دوسروں کے خاکے لکھتے لکھتے اپنا خاکہ بھی لکھ ڈالا تھا۔ اس کے یہ چند جملے دیکھیں کہ بظاہر انھوں نے اپنا مذاق اڑایا ہے لیکن درحقیقت ادیبوں پر چوٹ کی ہے:

ابھی یہ چار پانچ برس ہی کے ہوں گے کہ انھوں نے بھڑوں کے چتھے میں ہاتھ ڈال دیا اور اپنی خوب گت بنوائی۔ روئے، چیخے اور کپا۔ گھر والوں نے جناب کی یہ حالت دیکھی تو بھڑوں کے چھتے کو جلا ڈالا۔ کوئی دو مہینے بعد بھڑوں نے پھر وہیں ڈیرے ڈال دیے۔ انھوں نے دوبارہ چھتے میں ہاتھ ڈال کر اپنا حلیہ حسب سابق بنالیا۔ آج جبکہ اس واقعے کو تیس برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، انھوں نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کی عادت ترک نہیں کی۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan