Islamic Literature
اسلامی لٹریچر
اسلامی لٹریچر سے دلچسپی رکھنے والا ہر شخص جلال الدین سیوطی کے نام سے واقف ہے۔ اہل سنت اور اہل تشیع میں انھیں یکساں اہمیت حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے پانچ سو سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ ان میں سے تفسیر جلالین، الاتقان اور تاریخ الخلفا زیادہ مشہور ہیں اور ان کا اردو میں ترجمہ دستیاب ہے۔ سیوطی صاحب کی ایک کتاب کا نام الحاوی الفتاوی ہے جس میں انھوں نے اپنے فتوے جمع کردیے۔ مجھے یہ کتاب اردو میں نہیں ملی۔
بہرحال اس کی دوسری جلد میں انھوں نے رسول پاک کی احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے بیان کیا ہے کہ دنیا کی کل عمر سات ہزار سال ہے۔ رسول کی بعثت تک ساڑھے پانچ ہزار سال سے زیادہ گزر چکے تھے۔ یعنی رسول سے قیامت تک کا درمیانی عرصہ پندرہ سو سال سے کم ہوگا۔ امام سیوطی کی طرح ابن جریر طبری بھی عالم اسلام کی مشہور شخصیت ہیں۔ انھوں نے بھی تفسیر لکھی، لیکن ان کی تاریخ الرسل الملوک زیادہ مشہور ہے۔ عموما اسے تاریخ طبری کہا جاتا ہے۔
یہ بعد کی تمام اسلامی تواریخ کا سورس ہے۔ طبری نے اپنی تاریخ کی پہلی جلد میں ایک باب دنیا کی عمر پر باندھا ہے۔ ابتدا ہی میں عبداللہ ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے۔ جس میں سے چھ ہزار دو سال گزر چکے ہیں اور چند صدیاں باقی ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے رسول کی احادیث اور صحابہ کے متعدد اقوال پیش کیے ہیں اور حساب کتاب لگاکر ثابت کیا ہے کہ دنیا کی کل عمر سات بھی نہیں، چھ ہزار سال ہے۔
انھیں معتبر ترین علما کے مطابق حضرت آدم کی عمر مبارک ایک ہزار سال اور حضرت نوح کی عمر ساڑھے سولہ سو سال تھی۔ نوح کی عمر نو سو سال کہنے والوں نے پوری بات توجہ سے نہیں پڑھی۔ وہ روایت یوں ہے، نبوت عطا ہونے کے وقت نوح کی عمر ساڑھے تین سو سال تھی، وہ ساڑھے نو سو سال تبلیغ کرتے رہے، پھر عذاب الہی آیا اور اس کے بعد وہ ساڑھے تین سو سال زندہ رہے۔
آدم اور نوح کے درمیان دس نسلیں گزریں۔ ہر نسل کے لوگ کئی سو سال زندہ رہے۔ ان کے نام اور عمریں بھی طبری میں لکھی ہیں۔ سب کی عمریں جمع کرلیں تو چھ سات ہزار سال سے زیادہ بن جاتے ہیں۔ مسلمان حساب کتاب میں کتنے اچھے ہیں، یہ بات قرون اولی ہی سے ثابت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مغربی دانشور اسلامی لٹریچر کو کامیڈی سمجھ کر پڑھتے ہیں اور انھیں سائنس دانوں سے دور رکھتے ہیں ورنہ ڈارون، نیوٹن، آئن اسٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ نوعمری میں خودکشی کرلیتے۔