Ishq Mein Pagal
عشق میں پاگل
جون ایلیا نے اپنے مجموعہ کلام شاید کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ان کے بچپن میں ایک لڑکی، جو انھیں بہت پسند تھی، ان کے گھر آئی۔ وہ اس وقت کھانا کھارہے تھے۔ انھوں نے فورا لقمہ نگل لیا۔ یعنی ان کی محبوبہ کیا سوچتی ہوگی کہ ان کے جسم میں معدے جیسی کثیف اور غیر رومانوی چیز پائی جاتی ہے۔ جون صاحب نے اس وقت یہ نہیں سوچا کہ ان کی محبوبہ کے جسم میں بھی وہی غیر رومانوی شے موجود تھی۔
جون ایلیا شاعر تھے اس لیے لطیف انداز میں یہ بات بیان کی۔ منٹو سفاک افسانہ نگار تھا۔ اس نے اپنے افسانے عشق حقیقی میں ایک نوجوان کا حال بتایا جو ایک لڑکی کی محبت میں بری طرح گرفتار تھا۔ لیکن جب تنہائی میں اس سے ملاقات ہوئی تو پتا چلا، اس لڑکی کے منہ سے بدبو آتی ہے۔ وہ اسی وقت اسے چھوڑ بھاگا۔
یہ دونوں عشق لڑکپن کے عشق ہیں۔ ان میں عاشق ذہنی طور پر نابالغ ہے۔ اس نے عشق کرلیا ہے لیکن محبوب کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ اس کے ذہن میں بس ایک تصور ہے۔ ممکن ہے کہ وہ تصور درست ہو۔ غلط بھی ہوسکتا ہے۔
مذہبی جنونیوں کے عشق بھی ایسے ہی ہیں۔ وہ ان مقدس ہستیوں کے عشق میں پاگل ہیں جن کو انھوں نے نہیں دیکھا۔ سچ تو یہ ہے کہ انھوں نے اپنی محبوب ہستیوں کے بارے میں کچھ پڑھا بھی نہیں۔ پڑھا ہوتا تو ان کے تصورات مختلف ہوسکتے تھے کیونکہ کتابوں میں بہت کچھ اچھا لکھا ہے تو بہت کچھ دھچکا پہنچانے والا بھی ہے۔ لیکن ناسمجھ لوگ چند مفاد پرست مولویوں کے بہکانے پر ہوش و حواس سے بیگانے ہوجاتے ہیں۔ آدم خور درندوں کی طرح انسانوں کو جان سے مار دیتے ہیں۔
مولوی باز نہیں آئیں گے۔ یہ کام حکومت کا ہے کہ انھیں لگام دے۔ ان کے لاوڈ اسپیکر چھینے۔ نصاب کی کتابوں سے شدت پسندی کی باتیں مٹائے۔ ان چھاپا خانوں پر پابندی لگائے جو مذہبی کتابیں چھاپتے ہیں۔ جب مذہبی بنیاد پر کوئی قتل ہو تو قاتل کے ساتھ اس مولوی کو بھی سزا دے جس نے اسے اکسایا تھا۔
یہ بات بار بار پاکستانی مسلمانوں کو بتانے کی ہے کہ تمام انبیا، آئمہ، صحابہ، امہات، اولیا، پیر فقیر، سب انسان تھے۔ سب کے جسم میں معدہ اور انتڑیاں تھیں۔ وہ کھانا کھاتے تھے اور ان کا جسم فضلہ خارج کرتا تھا۔ وہ بھی بچپن میں بچپنے والی ناسمجھی کی باتیں کرتے تھے۔ وہ شادی کرتے تھے اور ان کا جنسی عمل انسانوں والا تھا۔ وہ سب بھی بوڑھے ہوتے تھے۔ ان سب کو بھی بیماریاں لاحق ہوتی تھیں۔ وہ سب دوسرے انسانوں کی طرح انتقال کرچکے ہیں۔
وہ نیک لوگ تھے لیکن کوئی نیوٹن اور آئن اسٹائن جیسا ذہین نہیں تھا۔ کسی نے کچھ دریافت یا ایجاد نہیں کیا۔ کسی نے کوئی کتاب نہیں لکھی۔ کسی نے غلامی ختم نہیں کی۔ کسی نے جمہوری آئین نہیں دیا۔
جون ایلیا نے لکھا کہ اگر آپ تاریخ کے کسی ہیرو یا دیوی کا مجسمہ دیکھ کر یہ سوچیں کہ زندگی میں اس شخصیت کے جسم میں معدہ بھی ہوگا اور انتڑیاں بھی تو آپ کے ذہن کو دھچکا لگے گا یا نہیں۔ میرا خیال ہے کہ مقدس ہستیوں کے ماننے والوں کے ذہن کو یہ دھچکا پہنچانے کا وقت آگیا ہے۔ ذہنی امراض کے ماہر اپنے مریضوں کو اسی لیے کرنٹ کے جھٹکے لگاتے ہیں۔ اگر یہ جھٹکے نہ لگائے گئے تو علم دین اور ممتاز قادری نام بدل کر بار بار پیدا ہوتے رہیں گے۔ آج کا کوئٹہ کا واقعہ دیکھ لیں۔