Ishaat e Quran
اشاعتِ قرآن
مسلمان من حیث القوم دنیا سے کتنے پیچھے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ گوٹن برگ نے چھاپا خانہ 1440 میں ایجاد کیا اور اسلامی دنیا میں پہلا قرآن چار سو سال بعد چھپا۔ پاکستان فری تھنکرز گروپ میں اکثر یہ بات کی جاتی ہے کہ آج جو قرآن مسلمان پڑھتے ہیں، وہ 1924 میں قاہرہ میں مرتب کیا گیا۔ یہ درست ہے، اگرچہ اس کا سیاق و سباق کم بیان کیا جاتا ہے۔
یہ بات بھی کم پاکستانی ملحدین اور مسلمان جانتے ہوں گے کہ 1924 کا قاہرہ ایڈیشن چھپنے کے بعد قرآن کے بے شمار پرانے نسخے دریائے نیل میں بہا دیے گئے تھے۔ یہ کام اسی نیت سے کیا گیا تھا، جس نیت سے حضرت عثمان نے اپنے دور میں متعدد نسخوں کو جلوا دیا تھا۔
میں نے اپنے کتب خانے والے گروپ میں اس قرآن کا عکس پی ڈی ایف کی صورت میں شئیر کیا تھا جو دنیا میں سب سے پہلے چھپا۔ وہ نسخہ اٹلی کے شہر وینس میں الیسیندرو پاگانینی نے 1537 میں چھاپا تھا۔
اس کے بعد ایک نسخہ جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں ابراہام ہنکل مین نے 1694 میں، ایک نسخہ لوڈوویکو مراچی نے 1698 میں اور ایک نسخہ گسٹاف فلوجیل نے 1834 میں شائع کیا۔ قرآن میں دلچسپی لینے والے مغربی اسکالرز نے دو سو سال تک انھیں نسخوں سے استفادہ کیا۔
فلوجیل کا نسخہ کئی بار شائع ہوا۔ اس دوران روس کی ملکہ کیتھرین کی سرپرستی میں سینٹ پیٹرزبرگ میں پانچ چھ بار قرآن چھاپا گیا اور اس عمل میں مسلمان شریک تھے۔
ایران پہلا مسلمان ملک تھا جہاں قرآن پرنٹنگ پریس میں چھپا۔ یہ واقعہ 1816 کا ہے۔ مصر میں 1833 میں اور ترکی میں 1850 میں پہلی بار قرآن چھپا۔ مصر میں تاخیر کی وجہ علما کی مخالفت تھی حالانکہ نپولین 1800 میں وہاں چھاپہ خانہ چھوڑ گیا تھا۔
ہندوستان میں پہلا قرآن 1850 میں لکھنئو میں چھپا۔ اس کے بعد ممبئی، کلکتہ اور دہلی میں چند چند سال کے وقفے سے قرآن کی اشاعت شروع ہوگئی۔
انیسویں صدی میں مختلف ملکوں میں قرآن چھپ تو رہے تھے لیکن کوئی ایک یونیورسل نسخہ نہیں تھا۔ ان میں کچھ نہ کچھ فرق موجود تھا۔ مسلمان علما کو اس کی فکر تھی۔ آخر جامعہ الازہر کے علما نے 1907 میں اس پر کام شروع کیا اور 17 سال میں مکمل کرکے 1924 میں متفقہ نسخہ شائع کیا۔ آج دنیا کے تمام قرآن اس نسخے کی نقل ہیں جسے مصحف الامیری، مصحف الملک الفواد، ازہر قرآن اور قاہرہ قرآن بھی کہا جاتا ہے۔
یہ بحث قرآن کے اسکالرز کے کرنے کی ہے کہ قدیم مخطوطات اور قاہرہ ایڈیشن میں کیا فرق ہے اور وہ کیا مسائل اور اختلافات تھے جنحیں رفع کرنے میں جامعہ الازہر کے علما کو 17 سال لگے۔