Hal Talash Karna Hoga
حل تلاش کرنا ہوگا
دو ماہ کی تعطیلات کے بعد پیر کو ہماری کاونٹی میں اسکول کھل جائیں گے۔ دو سال پہلے میں نے ایک اسکول میں چھ سات ماہ ملازمت کی اور پھر جارجیا چلا گیا۔ واپس آکر تعلیمی سال کے درمیان میں ملازمت شروع کی۔ ٹیچنگ لائسنس ملنے کے بعد میرا پہلا مکمل تعلیمی سال شروع ہورہا ہے۔
میں انگریزی پڑھاتا ہوں۔ اس مضمون کے اساتذہ تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو مقامی بچوں کو ایٹ لیول، آنرز اور اے پی یعنی ایڈوانس پلیسمنٹ کورس پڑھاتے ہیں۔ دوسرے ان بچوں کو پڑھاتے ہیں جن کی مادری زبان انگریزی نہیں ہوتی اور اس کی استعداد کم ہوتی ہے۔ ایسی کلاسوں کو انگلش لینگویج ڈویلپمنٹ کلاسیں کہتے ہیں۔
میں نے دونوں طرح کے طلبہ کو پڑھانے کے امتحان پاس کیے ہیں اس لیے مجھے وہ کلاسیں دی گئی ہیں جن میں انگریزی سیکھنے والے بچوں کو لٹریچر پڑھانا ہے۔ یہ تھوڑا مشکل کام ہے کیونکہ ایسے بچے ابھی فیگریٹو لینگویج نہیں سمجھتے۔ محاوروں سے آشنا نہیں ہوتے۔ گرامر کمزور ہوتی ہے۔ ذخیرہ الفاظ محدود ہوتا ہے۔
بچوں کے لیے اسکول کھلنے سے ہفتہ دس دن پہلے ٹیچرز واپس آجاتے ہیں۔ اپنا کلاس روم سجاتے ہیں۔ مجھے گورنمنٹ ہائی اسکول خانیوال یاد آتا ہے جہاں چھٹی جماعت کے چھ سیکشن تھے اور کسی کا کلاس روم نہیں تھا۔ سب بچے میدان میں درختوں کے نیچے بیٹھ کر پڑھتے تھے۔
کراچی میں میرے بچے بیکن ہاوس میں پڑھتے تھے۔ زیادہ فیسوں کے باوجود ان میں اے سی نہیں ہوتا تھا۔ یہاں سرکاری اسکول ہیں اور کوئی فیس نہیں۔ ہر کلاس روم میں اے سی لگے ہیں۔ پروجیکٹر بھی، جو وائرلیس ہیں۔ لیپ ٹاپ سے کنیکٹ ہوجاتے ہیں۔ ٹیچر سلائیڈز سے پڑھاتے ہیں، وائٹ بورڈ پر ایک لفظ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
اسکول کھلنے سے پہلے ایک ہفتے تک ٹیچرز کی تربیتی ورکشاپس ہوتی ہیں۔ آپ کتنے ہی پرانے ٹیچر ہیں، ان ورکشاپس میں شرکت لازمی ہے۔ پھر ہر شعبے کی میٹنگز ہوتی ہیں جن میں سلیبس کو فائنل کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پورے سال کا کیلنڈر طے کیا جاتا ہے۔ چار کوارٹرز ہوتے ہیں اور سال بھر میں 180 کلاسیں۔ اسکول کھلنے سے پہلے طے کرلیا جاتا ہے کہ ان 180 کلاسوں میں کیا پڑھانا ہے۔
اساتذہ کے لیے بعض شرائط بھی ہیں اور آزادی بھی۔ شرط یہ ہے کہ محکمہ تعلیم کے طے کیے ہوئے معیارات کے مطابق لرننگ ٹارگٹس حاصل کرنے ہیں۔ آزادی یہ ہے کہ ہر مضمون کی ایک کے بجائے چھ سات کتابیں دستیاب ہیں۔ ان سے اپنے لیسن بنائیں یا بے شک کہیں اور سے مواد حاصل کریں۔ عام طور پر اساتذہ اپنے شعبے کی ٹیم کے ساتھ چلتے ہیں۔ ان ٹیموں کا اجلاس ہر ہفتے ہوتا ہے جس میں پچھلے ہفتے کی پیشرفت کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اگلے ہفتے کے پلان پر نظرثانی کی جاتی ہے۔
میں ہائی اسکول میں پڑھاتا ہوں۔ نویں کے بچوں کو پہلے دن لیپ ٹاپ دے دیے جائیں گے جو وائی فائی سے کنیکٹ ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ اسکول اپنے ٹیچرز کو بھی لیپ ٹاپ دیتا ہے۔ لرننگ پلیٹ فارم پر کورس کی تمام کتابیں اور فکشن نان فکشن انسائیکلوپیڈیا اخبارات ہزار قسم کا مواد دستیاب ہے۔
میں بچوں کو کتابیں پڑھنے کے آپشن دیتا ہوں کہ پرنٹڈ بک کا مطالعہ کریں یا اسکرین پر پڑھیں یا سن لیں۔ تمام کتابوں کی آڈیو بکس موجود ہیں۔ جدید تحقیق کہتی ہے کہ کتاب پڑھنے اور سننے کا ایک جیسا فائدہ ہے۔ بہت سے بچے کتابیں سننے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ میں خود گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے آڈیو بکس سنتا ہوں۔
میں اولڈ اسکول یعنی پچھلی صدی کا بابا بڈھا ہوں۔ بچوں کو کاپی پینسل دے کر کہتا ہوں، ہاتھ سے لکھو۔ لیکن ایسے ٹیچر بھی ہیں جن کی کلاس میں کاغذ قلم کا کام نہیں۔ آن لائن اسائنمنٹ دیتے ہیں اور بچے آن لائن ہی جمع کراتے ہیں۔ مجھے اس پر یہ اعتراض ہے کہ وہ آن لائن ویب سائٹس، مثلا چیٹ جی پی ٹی سے مدد لیتے ہیں۔ ٹین ایجرز چالاک ہوتے ہیں۔
کل ایک ورکشاپ میں ہمیں بتایا گیا کہ اے آئی آ نہیں رہی، آچکی ہے۔ اس سے مفر ممکن نہیں۔ بچوں نے بڑے ہوکر اسے ریسورس بناکر اس سے فائدہ اٹھانا ہے۔ اس پر پابندی لگانے کے بجائے ہمیں اس کا ایتھیکل یعنی اخلاقی استعمال سکھانا چاہیے۔ میں اس خیال سے مکمل طور پر متفق نہیں کیونکہ جن بچوں کو انگریزی نہیں آتی، وہ گاڑھی انگلش میں مضمون لکھ کر لے آتے ہیں جو خود ان کی سمجھ سے بالاتر ہوتا ہے۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔
ایک ورکشاپ میں ٹیچرز کے لیے مفید اے آئی ٹولز کے بارے میں بتایا گیا۔ وہ کافی دلچسپ اور زندگی آسان کردینے والی معلومات تھی۔ سب سے اچھی بات تو یہی تھی کہ ٹیچرز کو ان ٹولز کے لیے ایک پیسہ دینے کی ضرورت نہیں۔ اسکول کے ای میل ایڈرس سے رجسٹریشن کرائیں تو سب مفت ہے۔