Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Aslam Adil Bhi Rukhsat Hue

Aslam Adil Bhi Rukhsat Hue

اسلم عادل بھی رخصت ہوئے

جنگ میگزین کے پیج میکرز کو فکر رہتی تھی کہ پیج انچارج وقت پر مواد فراہم کردیں اور جب پیج بن جائے تو جلدی سے احفاظ صاحب چیک کرلیں۔ اس کے بعد کوئی دفتر میں رہے یا اٹھ کر چلا جائے، کوئی نہیں پوچھتا تھا۔

جیونیوز جوائن کرنے سے پہلے ایک سال میں نے جنگ کے میگزین ڈپارٹمنٹ میں اسی طرح کام کیا۔ یہ اضافی پیسوں والا اضافی کام تھا کیونکہ میری اصل نوکری جنگ لندن ڈیسک پر تھی۔ اخبار تو لندن سے چھپتا ہے لیکن کام کراچی میں ہوتا ہے۔ میں نے نومبر 2001 میں جنگ لندن جوائن کیا۔ ایک سال بعد ایکسپریس کے ایڈیٹر طاہر نجمی نے بہتر تنخواہ پر واپس بلایا۔ جنگ نے مجھے روکنے کے لیے پیسے ڈیوڑھے کردیے لیکن میگزین کا کام بھی ذمے لگادیا۔

ان دنوں احفاظ الرحمان جنگ کے میگزین ایڈیٹر تھے۔ رضوان طارق سنڈے میگزین اور رضیہ فرید مڈویک میگزین کی انچارج تھیں۔ بھائی غلام محی الدین اور بھائی قمر عباس بھی وہیں کام کرتے تھے۔ غلام محی الدین سے میں اپنے لڑکپن سے واقف تھا کیونکہ جمعہ یا اتوار کو چھٹی کے دن ان کا سروے چھپتا تھا۔ روزنامہ جنگ کی خدمات پر پی ایچ ڈی کرنے والے قمر عباس اس وقت تک ڈاکٹر نہیں ہوئے تھے۔ ممتاز شاعر خالد معین شوبز کا صفحہ دیکھتے تھے۔ ادبی صفحہ اختر سعیدی کے پاس تھا۔

میں اسپورٹس کا انچارج تھا۔ ہفتے میں ایک پورا صفحہ اخبار کا اور ایک صفحہ مڈویک کا بھرنا پڑتا تھا۔ ان کے علاوہ مہینے میں ایک طویل انٹرویو بھی۔ میں دو نوکریاں اور لازمی صفحات کی ذمے داریاں انجام دینے کے بعد سنڈے میگزین کے لیے بھی مضامین لکھ مارتا تھا۔ کبھی ناغہ کرتا تو احفاظ صاحب شکایت اور اگلے ہفتے کے لیے فرمائش کرتے۔ وہ بہت باریک بیں اور آسانی سے مطمئن نہ ہونے والے آدمی تھے۔ لیکن مجھ سے ان کا رویہ ہمیشہ بہت اچھا رہا۔

ہر ہفتے اسپورٹس پیج، مڈویک اور سنڈے میگزین میں نام چھپنے پر خوشی تو ہوتی لیکن مرحوم ذاکر نسیم یاد آتے۔ وہ امن کے سابق نیوز ایڈیٹر اور ایکسپریس میں ہمارے کولیگ رہے۔ کبھی کبھی کہتے، بعض لوگوں کو لکھنے کا ہیضہ ہوجاتا ہے۔ پتا نہیں ذاکر صاحب ٹاک شوز اور سوشل میڈیا دیکھ کر کیا تبصرہ کرتے۔

جنگ میگزین میں کئی کمپوزر تھے جو ہاتھ سے لکھے گئے مضامین کو کمپیوٹر میں منتقل کرتے۔ کئی جدی پشتی گھڑے ہوئے پروف ریڈرز تھے۔ ان میں سے کئی میری طرح ڈبل شفٹ لگاتے تھے۔ صبح میں میگزین اور شام میں لندن یا نائٹ ڈیسک۔ شاید چار پیج میکر تھے۔ دو ڈھائی عشرے پہلے بھی کمپیوٹر پر ایسے خوبصورت پیج بناتے کہ دیکھنے والا اش اش کر اٹھتا۔

میں نے چند ماہ اسی طرح کام کرنے کی کوشش کی جیسے سب کررہے تھے۔ لیکن پھر میری جلدباز طبیعت اتنا لمبا پراسیس برداشت نہ کرسکی۔ میں سارے مضامین براہ راست کمپیوٹر پر لکھتا، خود پروف ریڈنگ کرتا کیونکہ ڈائجسٹوں میں کرتا آیا تھا، تصویریں اسکین کرواتا اور جنگ لندن میں بیٹھے بیٹھے پیج میکنگ کرلیتا۔ عین وقت پر اخبار منزل، جہاں میگزین ڈپارٹمنٹ قائم تھا، جاکر احفاظ صاحب کو پیج چیک کروادیتا۔ میں نے وہ تمام صفحات اور میگزین اب تک سنبھال کر رکھے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ نوجوانی میں کس قدر توانائی تھی۔

میں اکثر وقت سے پہلے دفتر پہنچ جاتا تھا۔ فرصت میں جنگ میگزین کے پیج میکرز کے کمرے میں بیٹھ جاتا۔ اسلم عادل سنڈے میگزین کے مین پیجز بناتے تھے۔ مجھ سے بھی چھوٹا سا قد تھا۔ ہر وقت ہنستے مسکراتے رہتے۔ نرجس ملک خواتین کے صفحات لے کر آتیں تو مذاق مذاق میں انھیں تنگ کرتے۔ ایک اور پیج میکر خالد صاحب تھے۔ ان کا آدھا نام اس لیے یاد رہ گیا کہ دوسرے خالد یعنی خالد معین کا فن و فنکار والا صفحہ بناتے تھے۔

یہاں ورجینیا میں آدھی رات ہوئی ہے اور یادوں کی کھڑکی کھل گئی ہے۔ لکھتا رہا تو صبح تک سلسلہ چلتا رہے گا۔ لیکن دراصل دل بجھا ہوا ہے کیونکہ فیس بک سے اسلم عادل کے انتقال کی خبر ملی ہے۔

اسلم بھائی، احفاظ صاحب نے پیج چیک کرلیا ہے۔ آپ رخصت ہوسکتے ہیں۔

Check Also

Peshawarana Taleem Aur Larkiyan

By Mubashir Aziz