Amrohay Ke Namwar Afrad
امروہے کے نامور افراد
امروہے کے نامور افراد کا ذکر ہوتا ہے تو جون ایلیا، رئیس امروہوی، ڈاکٹر ہلال نقوی اور کمال امروہوی کے ساتھ صادقین کا نام بھی پہلی فہرست میں آتا ہے۔ صادقین صرف باکمال مصور نہیں، بہترین خطاط اور اعلی درجے کے شاعر بھی تھے۔
اب امروہے والوں میں شاعروں کی تعداد کچھ کم ہوگئی ہے لیکن ایک وقت ایسا تھا جب گھر میں بندے چھ ہوتے تھے اور شاعر سات۔ کیونکہ گھوسٹ شاعری بھی کی جاتی تھی۔ حال یہ تھا کہ کسی کو گالی بھی دینی ہو تو رباعی کہتے تھے اور مخالف کے/کی تمام لواحقین کو قافیوں میں باندھ دیتے تھے۔
صادقین نفیس طبع آدمی تھے۔ رباعی تو کہتے تھے لیکن جس سے دل خراب ہوجائے، یا جس پر دل آجائے، اسے تصور کے ساتھ تصویر میں برہنہ کرتے تھے۔
یہ خیال مجھے رباعیات صادقین کے پرانے نسخے کو دیکھ کر آیا۔ اس میں حضرت صادقین نے رباعیوں میں کم اور تصویروں میں زیادہ "نون" بلکہ غنے بھی بنائے ہیں۔
بعض خاکے ایسے ہیں کہ شیرخوار دیکھے تو بھوک سے بلبلا جائے۔
یہ کتاب صادقین نے ہمارے استاد جناب انور اقبال کو دستخط کرکے خود پیش کی تھی۔
انور صاحب بہت زمانے سے امریکا میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ لیکن ان دنوں، یعنی چالیس سال پہلے اسلام آباد میں رہتے تھے۔ کون کون سے سیاسی قائدین اور مشاہیر سے ان کی ملاقات نہیں ہوئی۔ بے شمار قصے ہمیں سناتے ہیں لیکن کتاب نہیں لکھتے۔ لکھیں تو بہتوں کا بھلا ہو۔
ڈِیڑھ سال پہلے میں اسکول میں کام کررہا تھا کہ جارجیا کے ایک نیوز چینل سے پیشکش ملی۔ میں مشورہ کرنے انور صاحب کے گھر گیا کیونکہ وہ صحافی ہیں اور بھابھی اسکول ٹیچر ہیں۔ تب انھوں نے رباعیات صادقین دے کر کہا کہ اس کا حال خستہ ہے۔ آپ کتابیں اسکین کرتے ہیں تو اسے بھی کردیں۔
پھر میں جارجیا چلا گیا۔ چھ ماہ بعد جاب چھوڑ کے واپس آیا تو کتاب غائب۔ گھر والوں نے میری کتابوں کو سمیٹنے کی کوشش میں کہیں رکھ دی تھی۔ کئی ماہ بعد کتاب ملی تو اسکینر میں کوئی مسئلہ ہوگیا۔
اس دوران انور صاحب سے درجنوں ملاقاتیں ہوئیں لیکن انھوں نےایک بار بھی کتاب کا ذکر نہیں کیا۔ میں دل میں شرمندہ ہوتا رہا کہ وہ سمجھ رہے ہوں گے، اسے دستخط والی کتابیں جمع کرنے کا شوق ہے تو میری کتاب واپس نہیں کررہا۔
کتاب سنبھال کر رکھی اور اسکینر ٹھیک ہوا تو سب سے پہلے اسے اسکین کیا۔ آج ان کی اجازت سے اسے کتب خانے والے گروپ میں پیش کیا ہے۔