Americi Sadarti Intikhabat
امریکی صدارتی انتخابات
برطانیہ کے انتخابات میں لیبر پارٹی کو لینڈسلائیڈ کامیابی ملی ہے اور کنزرویٹوز کو تاریخ کی بدترین شکست کا سامنا ہے۔ چار ماہ بعد امریکا میں بھی الیکشن ہیں لیکن یہاں کی لیبر پارٹی یعنی ڈیموکریٹس کی کامیابی مشکل دکھائی دیتی ہے۔ اگر آپ کے پاس امریکا کا ویزا ہے اور یہاں آنے کی خواہش ہے تو چار چھ مہینے میں آجائیں۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن جیتے، جس کا بہت زیادہ امکان ہے، تو وہی ہوگا، بلکہ اس سے زیادہ، جو حضرت اپنے پہلے دور میں کرچکے ہیں۔
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ ٹرمپ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ ٹرمپ کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتی۔ بعض لوگ ان کے خلاف مقدمات کی یہی وجہ سمجھتے ہیں۔ ایک مقدمے میں انھیں مجرم قرار دیا جاچکا ہے۔ جرمانے بھی ہورہے ہیں۔ لیکن امریکا میں جمہوری اقدار مضبوط ہیں اس لیے انھیں الیکشن لڑنے سے نہیں روکا جاسکتا۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ امریکی سپریم کورٹ کے نو میں سے چھ جج ری پبلکنز صدور کے مقرر کردہ ہیں۔ یعنی ان کی طرف جھکاو رکھتے ہیں۔ ٹرمپ سے متعلق کوئی معاملہ سپریم کورٹ پہنچتا ہے تو ان کے حق میں فیصلہ آتا ہے۔
میں جتنے ڈیموکریٹس یا ان سے ہمدری رکھنے والے امریکیوں کو جانتا ہوں، ان میں سے کسی کو صدر بائیڈن کی دوبارہ کامیابی کا یقین نہیں۔ پہلے صدارتی مباحثے میں ان کی پرفارمنس اتنی بری تھی کہ انھیں خود بھی اس کا اقرار کرنا پڑگیا۔
کیا اس طرف بھی اسٹیبلشمنٹ متحرک ہوئی ہے؟ ممکن ہے کیونکہ ڈیموکریٹ ارکان کانگریس کھل کر اظہار کررہے ہیں کہ بائیڈن کو صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ تین عوامی نمائندوں نے صدر بائیڈن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انتخاب سے دستبردار ہوجائیں۔
امریکا میں میڈیا ادارے اپنی واضح شناخت رکھتے ہیں کہ کون ری پبلکنز کا حامی ہے اور کون ڈیموکریٹس کا۔ نیویارک ٹائمز کس قدر اہمیت رکھتا ہے، سب جانتے ہیں۔ اس اخبار نے اداریہ لکھ کر صدر بائیڈن کو مشورہ دیا ہے کہ انتخاب میں حصہ نہ لیں۔
گزشتہ روز 20 ڈیموکریٹ گورنروں نے صدر بائیڈن سے ملاقات کی تھی جس میں صدارتی انتخاب کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ وائٹ ہاوس کا اصرار ہے کہ 82 سالہ صدر بائیڈن فٹ ہیں اور انتخابی مہم جاری رکھیں گے۔
امریکا کے صدارتی انتخاب سے صرف امریکی متاثر نہیں ہوتے، پوری دنیا پر اثر پڑتا ہے۔ ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کے امکان سے یورپی رہنماوں کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں۔ ڈیموکریٹس مایوسی کا شکار ہیں۔ میڈیا حواس باختہ ہے اور سوشل میڈیا کمپنیاں خوف میں مبتلا ہیں۔ ٹرمپ یقینا نہیں بھولے ہوں گے کہ چار سال پہلے ٹوئیٹر اور فیس بک نے ان کے اکاونٹ بلاک کردیے تھے۔