Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Americi Mausam

Americi Mausam

امریکی موسم

وقت گزرنے کے ساتھ پاکستان کی سیاست میں میری دلچسپی ختم ہوتی جارہی ہے۔ ممکن ہے اس کی وجہ امریکا میں قیام کا طویل عرصہ ہو۔ ممکن ہے اس کی وجہ پیشہ ورانہ صحافت سے علاحدگی ہو۔ ممکن ہے اس کی وجہ پاکستان کے حالات سے مایوسی ہو۔

پتا نہیں سات سال کو طویل عرصہ کہا جاسکتا ہے یا نہیں۔ ہمیں یہاں آئے ہوئے آٹھواں سال شروع ہوچکا ہے۔ اب یہاں کی سیاست، یہاں کا معاشرہ، یہاں کا میڈیا، یہاں کے لوگ پہلے سے زیادہ سمجھ میں آنے لگے ہیں۔ ہر شعبے کا ایک نظام ہے۔ ایک پریڈکٹیبلٹی ہے۔ ہر کام قاعدے سے کیا جاتا ہے اور کوئی بھی سیکھ سکتا ہے۔ دوسری تیسری نسل کے امیگرنٹس زیادہ مہذب، زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ باشعور ہیں۔ غالب اکثریت قانون پسند ہے۔ سیاست دان عمومی طور پر کرپٹ نہیں ہیں اور اگر کوئی کرپٹ ہے تو پکڑا جاتا ہے۔ نظریاتی تقسیم میں شدت ہے لیکن وہ اپنے ملک کو بہتر بنانے کے لیے ہے، ذاتی مفادات کے لیے نہیں۔ دونوں جماعتوں میں عام کارکنوں سے سینیٹرز تک قیادت کے مخالفین موجود ہیں جو کھل کر، یعنی میڈیا میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ کہ وہ اپنے عوام کو جوابدہ ہیں، قیادت کے اشارے سے پارلیمان میں نہیں پہنچتے۔

کہتے ہیں موسم کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ بات درست ہے لیکن موسمیاتی سیارچے قابل اعتبار ہوتے ہیں۔ کافی حد تک درست پیش گوئیاں ممکن ہوگئی ہیں۔ یہاں ریڈیو پر ایک گھنٹے میں چار بار، یعنی ہر پندرہ منٹ بعد موسم کا حال بتایا جاتا ہے۔ اس سے اندازہ کرلیں کہ یہاں یہ اہم معاملہ ہے۔ اس کے باوجود تین تین ہفتے کی پیش گوئیاں ٹھیک ہوجاتی ہیں۔ بلکہ فارمرز المانیک تو پورے سیزن کی پیش گوئی کردیتی ہے۔

کرسمس سے پہلے واشنگٹن پوسٹ نے خبردار کردیا تھا کہ اس بار سخت سردی آرہی ہے اور ایک لہر مہینہ بھر چلے گی۔ چنانچہ چل رہی ہے۔ دو ہفتے پہلے جو برفانی طوفان آیا تھا، اس کی برف اب تک نہیں پگھلی۔ واشنگٹن اور اس کے اطراف میں یہ تھوڑا عجیب معاملہ ہے۔ اتنا عرصہ برف نہیں جمی رہتی۔ لیکن درجہ حرارت اوپر جا ہی نہیں رہا۔ درمیان میں کئی بار برف کی پھوہار پڑچکی ہے۔ کل صبح اور پھر شام برف کے گالے اڑ رہے تھے۔ اب اتوار کو تین انچ برف گرنے کا امکان ہے۔ اس کے بعد چار دن تک زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت منفی پانچ ڈگری سینٹی گریڈ ہوگا۔ منفی پانچ ہوگا زیادہ سے زیادہ۔ کم سے کم منفی پندرہ تک جائے گا۔ فیلز لائیک منفی بیس بائیس ہوسکتا ہے۔ یہ وہ درجہ حرارت ہے جس پر فروسٹ بائیٹ ہوجاتا ہے۔ یعنی آپ کے جسم کا جو حصہ ڈھکا ہوا نہیں ہوگا، وہ جم کر ناکارہ ہوسکتا ہے۔

کینیڈا میں، خاص طور پر شمالی کینیڈا میں بہت سخت سردی پڑتی ہے۔ اسکینڈے نیویا اور سائیبیریا میں بھی۔ وہاں معمولات زندگی چلانے کے لیے مختلف نظام ہوگا۔ واشنگٹن والوں کے لیے اس بار موسم زیادہ سخت اور ضدی ثابت ہورہا ہے۔

جب ہم یہاں نئے نئے آئے تھے تو جنوری ہی تھا۔ ایک سوپر مارکیٹ میں ایک انکل کو کہتے سنا کہ تھرٹیز تک موسم بھگت لیتا ہوں، اس سے نیچے برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اب میرا بھی یہی حال ہے۔ تھرٹیز یعنی تیس درجے فارن ہائیٹ، بتیس ڈگری فارن ہائیٹ اور صفر درجہ سینٹی گریڈ مساوی ہوتے ہیں۔ میں دس ڈگری سے اوپر سوئیٹر جیکٹ کے بغیر کام چلا لیتا ہوں۔ صفر تک عام جیکٹ چل جاتی ہے۔ اس سے نیچے موٹی پیڈڈ جیکٹ پہننا پڑتی ہے۔ دستانے اور ٹوپی بھی، کیونکہ ہوا اکثر تیز چلتی ہے اور جان لیوا ہوجاتی ہے۔

امریکا میں دو شعبے ایسے ہیں، جن میں میری دلچسپی صفر ہے۔ ایک امریکی موسیقی اور دوسرے امریکی کھیل۔ میں ٹیلر سوئفٹ، بیونسے، لیڈی گاگا سے واقف ہوں لیکن گانے ہندوستانی ہی پسند ہیں۔ جب میں گاڑی چلاتا ہوں تو آڈیو بکس سنتا ہوں یا انڈین گانے۔ لتا اور کشور کے ڈوئیٹس کی لت میرے دوست شباہت حسین نے لگائی تھی۔ کبھی کبھی دبئی یا ممبئی کے ایف ایم بھی سنتا ہوں۔ ممبئی کا بولی ووڈ ریڈیو سب سے بہتر ہے۔ کوئی آر جے نہیں، کوئی اشتہار نہیں، صرف نئی فلموں کے ہٹ گیت چوبیس گھنٹے چلتے رہتے ہیں۔

امریکی باسکٹ بال، بیس بال اور اپنی خاص طرز کی فٹبال کے دیوانے ہیں۔ ہماری سر سے کرکٹ کا بھوت نہیں اترتا۔ اگر قوم اعتدال میں رہتی اور اس بھوت کو اوقات میں رکھتی تو ورلڈکپ جیتنے والا کپتان شہرت کے زعم میں سیاست میں نہ گھستا، ایجنسیوں سے سازباز کرکے وزیراعظم نہ بنتا اور کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم نہ کرتا۔ پھر پکڑے جانے پر جیل نہ ہوتی، مقدمات نہ چلتے اور سزائیں نہ ملتیں۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail