Aik Din Ghaza Envelope Mein
ایک دن غزہ انویلپ میں

جنگ کے دوران غزہ کی پٹی کی طرف جانا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ ہماری میزبان الیسا نے یروشلم سے روانہ ہوتے ہوئے ہمیں احتیاطی تدابیر سے آگاہ کردیا تھا۔ سائرن سنائی دے تو دس سیکنڈ کے اندر شیلٹر میں پہنچنا ہوگا۔ اگر غزہ کی جانب سے میزائل آئے تو کتنی دیر شیلٹر کے اندر رہنا ہوگا۔ خطرہ ٹل جائے تو کب باہر نکلنا ہوگا۔
ہم گویا وار زون میں جارہے تھے۔ غزہ کے اندر نہیں، غزہ انویلپ میں۔ اسرائیل کے جو علاقے غزہ کی پٹی سے سات کلومیٹر تک فاصلے پر ہیں، انھیں غزہ انویلپ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں تک حماس کے میزائل مار کرتے ہیں۔
یروشلم سے اس علاقے تک کا سفر ڈیڑھ پونے دو گھنٹے کا تھا۔ سگی کی گاڑی تھی۔ شراکہ کے تین میزبانوں کے علاوہ ہمارے ساتھ اسرائیلی صحافی ائیلیت کہین بھی تھیں جنھوں نے بعد میں ہمارے انٹرویوز کیے اور اس دورے پر تفصیلی رپورٹ شائع کی۔
سب سے پہلے ہم سرحد کے بالکل ساتھ قائم کیبوٹز پہنچے۔ یہاں مجھے بتانا چاہیے کہ کیبوٹز کیا ہوتا ہے۔ یہ ایک سوشلسٹ قسم کی کمیونٹی ہوتی ہے جو اپنی مدد آپ کے تحت چلائی جاتی ہے۔ اس میں کوئی بھی شامل ہوسکتا ہے اور جب جی چاہے، چھوڑ کے جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی امیر اور غریب نہیں ہوتا۔ سب مل کر کام کرتے ہیں اور آمدنی مشترکہ ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ زراعت سے وابستہ ہوتے ہیں لیکن ان میں کارخانے بھی ہوتے ہیں۔ وکی پیڈیا کے مطابق اسرائیل میں 270 ایسی بستیاں ہیں جن میں 80 سے 2000 تک افراد رہتے ہیں۔ یہ ذہین اور بے غرض لوگ سالانہ دسیوں ارب ڈالر کماتے ہیں۔ انھیں کارکنوں کی ضرورت پڑتی ہے تو غزہ کے فلسطینیوں اور بیرون ملک سے بھی لوگوں کو ملازمت فراہم کرتے ہیں اور انھیں اچھی تنخواہیں دیتے ہیں۔
ہمارا قافلہ ایسی ایک بستی نیر اوز پہنچا جہاں سات اکتوبر 2023 کو حماس نے حملہ کرکے ایک چوتھائی آبادی کو قتل، زخمی یا اغوا کیا۔ زندہ بچ جانے والوں کو دوسرے علاقوں میں منتقل کردیا گیا اور اب یہ بستی ویران پڑی ہے۔ حملے کے دن وہاں موجود خاتون اریت لہاف خاص طور پر ہم سے ملنے کے لیے آئیں اور ہمیں معلومات فراہم کی۔
انھوں نے سب سے ہمیں بستی کی باڑ دکھائی۔ ہم کچھ فاصلے پر، شاید ایک ڈیڑھ کلومیٹر دور دوسری باڑ دیکھ سکتے تھے جو غزہ کی تھی۔ اس کے پیچھے فلسطینیوں کے گھر ہمیں نظر آرہے تھے۔ اریت نے کہا، دیکھیں، ہم اور وہ کتنے قریب رہتے ہیں۔ ہمارا آنا جانا بھی تھا۔ میں ہر ہفتے اپنی چھٹی کے دن غزہ جاتی تھی اور بیماروں کو اسپتال پہنچاتی تھی۔ یہ میرا معمول تھا۔ کیبوٹز میں رہنے والے رضاکار قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ہمیشہ دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہتے ہیں۔ میرے علاوہ دوسرے لوگ بھی غزہ جاتے تھے اور ہم ایک دوسرے سے واقف تھے۔
ان کے کیبوٹز کے مرکزی دروازے پر محافظ ہوتے ہیں لیکن اریت نے بتایا کہ اندر گھر کھلے رہتے ہیں۔ سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ ان کے والد تب اس کیبوٹز میں آئے جب وہ بچی تھیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ باہر رہیں۔ بعد میں واپس آگئیں۔ اب اپنی بیٹی کے ساتھ یہاں رہتی تھیں۔ ہر گھر میں ایک کمرا شیلٹر کے طور پر بنا ہوتا ہے۔ سائرن بجے تو سب اس میں چلے جاتے ہیں۔ خطرہ ختم ہونے پر باہر آجاتے ہیں۔ اس میں بھی کنڈی نہیں ہوتی۔ کسی نے سوچا ہی نہیں تھا کہ کوئی جتھہ بستی پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔ بہرحال بستی کے چند افراد ہمیشہ چوکنا رہتے تھے تاکہ کسی خطرے کی صورت میں باقی لوگوں کو خبردار کرسکیں۔
پھر سات اکتوبر 2023 کا دن آیا۔ حماس کے سیکڑوں جنگجو غزہ انویلپ میں گھس گئے۔ کیبوٹز کے لوگ میزائل حملوں کے عادی تھے۔ لیکن فائرنگ کی آوازوں پر گھبرائے۔ گھر کے دروزے بند کرلیے۔ لیکن اس سے پہلے بہت سے لوگ حماس والوں نے مار ڈالے یا پکڑلیے۔ اریت نے بتایا کہ گھر کا دروازہ بند کرنے کے بعد وہ بیٹی کو لے کر شیلٹر روم میں چلی گئیں۔ انھیں اندازہ ہوچکا تھا کہ حملہ آور بستی کے اندر ہیں اور گھر میں گھس سکتے ہیں۔ وہ گھسے بھی اور شیلٹر کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔ اریت نے دو اہم کام کیے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ جیولری کا کام کرتی ہیں۔ ان کے پاس ایسے تار تھے جو انھوں نے دروازے کے ہینڈل اور کسی ہک میں پھنسا دیے تو باہر سے زور لگانے سے دروازہ نہیں کھولا جاسکا۔ تین بار کوشش کی گئی لیکن حملہ آوروں کو ناکامی ہوئی۔ دوسرے، اریت نے کمرے میں اندھیرا رکھا اور ماں بیٹی نے کوئی آواز نہیں نکالی۔ جنگجووں نے بہت سے گھروں کو آگ لگائی۔ ان کے گھر کو بھی آگ لگاسکتے تھے۔ لیکن شاید مکمل خاموشی کی وجہ سے سمجھے کہ کوئی یہاں موجود نہیں۔
یہ کوئی ایک دو گھنٹے کا کھیل نہیں تھا۔ جنگجو مکمل منصوبے اور تیاری سے آئے تھے۔ انھوں نے سب سے پہلے سرحد کے ساتھ تمام تار کاٹ دیے تھے جس کی وجہ سے تمام کیمرے بند ہوگئے۔ اسرائیلی فوج کو بہت تاخیر سے پتا چلا کہ کن بستیوں پر حملہ ہوا ہے اور مدد کہاں بھیجنی چاہیے۔ اریت کا کیبوٹز بارہ چودہ گھنٹے تک جنگجووں کے رحم و کرم پر تھا۔
اریت نے ہمیں اپنی بستی گھمائی۔ ہر گھر پر ان لوگوں کی تصویرں لگی تھیں جو قتل کردیے گئے یا حماس نے اغوا کرلیے۔ ان میں ایک سال کے بچے سے پچاسی سال کے بوڑھوں تک کی تصویریں تھیں۔ ہمارا خیال تھا کہ قتل اور اغوا کیے گئے تمام افراد اسرائیلی اور یہودی تھے۔ بعض غیر ملکیوں کے بارے میں سنا تھا لیکن ہم جانتے ہیں کہ بہت سے اسرائیلیوں کے پاس دوسرے ملکوں کی شہریت ہوتی ہے۔ اریت نے بتایا کہ مقتولین اور مغویوں میں وہ غیر ملکی کارکن شامل ہیں جو کیبوٹزم کے ملازم تھے۔ ان میں اسرائیل کے عرب مسلمان شامل ہیں۔ غزہ کے لوگ بھی ہیں۔ امن معاہدے سے پہلے آخری لاش ایک مسلمان ہی کی ملی ہے۔
میں نے اریت سے ایک مشکل سوال پوچھا، حالات معمول پر آنے کے بعد کیا آپ دوبارہ غزہ کے لوگوں کو اسپتال پہنچانے والا کام کریں گی؟ اریت کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انھوں نے کہا، شاید اب نہ کرسکوں۔ اس کی وجہ خوف نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی فلسطینی نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ لاکھوں کی آبادی میں کوئی ایک تو ہمارا ہمدرد ہوتا جو اس سازش سے آگاہ کردیتا۔ چلیں، پہلے کی بات چھوڑ دیں۔ عام فلسطینی کو سازش کا علم نہیں ہوگا۔ لیکن اب حماس کی قید میں سو سے زیادہ افراد ہیں۔ وہ سب کسی ایک جگہ نہیں ہیں۔ جو چند لوگ چھوٹ چکے ہیں، انھوں نے واپس آکر بتایا کہ انھیں عام فلسطینیوں کے گھر میں رکھا گیا۔
بار بار مختلف علاقوں میں منتقل کیا گیا تاکہ اسرائیلی فوج کو پتا نہ چلے۔ کسی گھر میں چار مہمان آتے ہیں تو وہ بازار سے کھانے پینے کا زیادہ سامان خریدتا ہے۔ پورے محلے کو نہ سہی، ہمسایوں کو نقل و حرکت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہ کیسے لوگ ہیں کہ کسی ایک میں بھی انسانیت نہیں۔ انھیں اسرائیلی فوج پر غصہ ہے، اسرائیلی حکومت سے شکایتیں ہیں، ہم سے کیا دشمنی ہے؟ دشمنی تھی تو ہم سے فائدے کیوں اٹھائے؟ ہم سے مدد کیوں لیتے رہے؟ ان حملوں نے ہم سب کو بہت مایوس کیا ہے۔

