Siasat, Samaj, Maeeshat Process Hain
سیاست، سماج، معیشت پراسس ہیں
جو سیاست، سماج اور معیشت کو تھوڑا بہت سمجھنا چاہتے ہیں ان کے لیے لکھے دیتا ہوں کہ یہ تینوں ایک دوسرے سے جڑے Integrated Processes ہیں، واقعہ نہیں۔ سیاست ان تینوں میں ماں کے درجہ پر فائز ہے۔ آپ سیاست خراب کیجیے، باقی دونوں خراب ہو جائیں گے۔ آپ ان تینوں Social Institutions میں ہونے والے کسی بھی واقعے کو اس کی Totality میں نہیں دیکھ سکتے کیونکہ وہ واقعہ بھی عین اسی Integrated Process کا اک معمولی سا حصہ ہوتا ہے، بھلے اس کا اثر جو مرضی ہے ہوتا ہو۔
ان تینوں معاملات کو Processes کے زاویہ سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرنے کا اک بہت بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ واقعاتی شخص رہتے ہی نہیں اور اس عمل کی مسلسل Continuation کے جبر کو سمجھ جاتے ہیں اور اس پر بھروسہ کرتے ہوئے، ہو جانے والے کسی اک واقعے سے اگلے واقعہ کی طرف نکلنے والی راہ کو دیکھنے یا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سنجیدہ کام ہوتا ہے اور اس کے لیے روزانہ کی بنیاد پر خود کو Update کرنا اور اپنے ذاتی جذبات کو اپنے تجزیہ اور Process کے کیمیا سے الگ کہیں بند کر کے رکھنا ہوتا ہے۔ وگرنہ خاکوانی، آصف، حسن نثار اور استاد بوتل وغیرہ جیسے دانشور پروپیگنڈے کے جانوروں کو سدھانے کے کام آتے ہیں۔
دانشوری کی اسی فہرست میں دیگر بھی کئی نام ہیں جنہوں نے شام کے وقت فائلیں ان کے گھر یا دفاتر میں مہیا کر دی جاتی ہیں اور وہ اس کے اک دن بعد اپنے وسیب کا ماتم کرتے ہوئے سکینڈل پر سکینڈل قوم کے سامنے لاتے پھرے ہیں۔ قوم کی اکثریت بھی پروپیگنڈے کے سدھائے ہوئے جانوروں کی طرح کبھی اس گیند کے پیچھے اور کبھی اس ہڈی کے پیچھے بھاگتی رہتی ہے۔
یہ میرے سیاسی ایمان کا حصہ ہے کہ پروپیگنڈے کے سدھائے ہوئے جانور سے، وہ بھلے کسی بھی پارٹی کا ہو، کسی قسم کی بامعنی سیاسی، سماجی و معاشی گفتگو نہایت ہی بےکار کا عمل ہے کیونکہ وہ اپنے مونہہ میں گیند دبائے آپ کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ گیند مونہہ میں دبائے وہ جو بولے گا، وہ آپ کو سمجھ نہیں آئے گی اور جو آپ کہیں گے، تو مونہہ میں گیند دبائے اس کے کانوں پر جو پریشر پڑ رہا ہوگا، وہ آپ کی بات نہیں سمجھ پائے گا۔ ایسوں کو پروپیگنڈے کے جانور کے طور پر ہی دیکھا کیجیے اور ان کا مذاق اڑا کر ان سے رستہ الگ کر لیا کیجیے۔
سیاست، سماج اور معیشت یہ تینوں نہایت ہی پیچیدہ اور ہرپل بدلنے والے Processes ہوتے ہیں۔ پاکستانی فوج کی برباد کردہ ملکی سیاست میں یہ تینوں مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں تو اس الجھی ڈور کو سلجھانا مزید مشکل، مگر مزید دلچسپ بھی ہو جاتا ہے۔
اس عوامل کی پیچیدگی کا اتنا ثبوت ہی کافی ہے کہ لوگ آج بھی ایوب خان کو معاشی جادوگر کہتے ہیں۔ بھٹو کی نیشنلائزیشن کا دفاع کرتے ہیں۔ جنرل ضیا کو مؤمن مانتے ہیں۔ عمران نیازی کو قابل اور صاف شفاف تسلیم کرتے ہیں۔ بی بی شہید کا کیرزما اپنی جگہ، مگر ان کی گورننس کے مسائل گھمبیر تھے۔ ڈاکٹر پرویز ہودبھائی اس سلسلہ میں اقبال احمد مرحوم کے صرف ایک پراجیکٹ کی بابت ہی کچھ بتا دیں تو کافی کچھ کھل جائے گا۔ اسلام آباد نیو سٹی تو کسی کسی کو یاد ہو گا۔ نواز شریف صاحب بھی اپنی سیاست کے دنوں کے اوائل کے عمران نیازی تھے اور یہ ماننا بالکل بےکار کی بات ہے کہ انہوں نے یا ان کے خاندان نے، کم از کم، اپنی سیاست کے آغاز میں کوئی Systematic مارا ماری نہیں کی ہوگی۔
دیکھ یہ لیجیے کہ ان تمام کے ساتھ قومی ترقی کے حوالہ جات کیا رہے۔ جو حوالہ جات رہے، وہی ان کی آج کی حقیقت بھی ہے۔ آپ اگر سیاست میں دلچسپی لیتے ہیں تو سماج و معیشت کے معاملات میں بھی دلچسپی لیجیے۔ یہ ضروری ہے۔ ہاں مگر اپنے تخیل اور رائے کو علم اور حقیقت نہ سمجھا کیجیے۔ آپ یہ بھی سمجھ سکتے ہیں اگر آپ یوتھڑ ہیں تو۔ اپنے چند اک دوستوں سے وٹس ایپ پر سنجیدہ گفتگو ہو جاتی ہے تو ان علوم کے حوالے سے جڑا اپنا ٹھرک بھی پورا ہو جاتا ہے۔
اب مزاج نہیں ہوتا۔ نجانے طبیعت پر آج تھوڑی غیرسنجیدگی طاری تھی تو یہ بیکاریت، آپ احباب کے نام۔