Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashar Noor Kamyana
  4. Germany Ko Qarz Dene Wala Pakistan

Germany Ko Qarz Dene Wala Pakistan

جرمنی کو قرض دینے والا پاکستان

جرمنی ایک عیسائی ملک ہے۔ 1945 میں دوسری جنگ عظیم چل رہی تھی۔ جس وجہ سے جرمنی اس وقت بہت ہی گھمبیر حالات میں گھرا ہوا تھا۔ دیوالیہ ہونے کے قریب قریب بھٹک رہا تھا۔ جنگ کا اختتام ہوا تو ہٹلر نے خودکشی کر لی۔ جنگ کے بعد جب ملک کا معائنہ کیا گیا تو جرمنی کی فوج ختم ہو گئی تھی۔ اس وقت جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔

ایک مشرقی جرمنی دوسرا مغربی جرمنی۔ اس کے 75 لاکھ شہری ہلاک ہو گئے۔ جرمنی کے تقریباً 114 کے لگ بھگ چھوٹے بڑے شہر تباہ ہو گئے۔ ملک کی تقریباً 25 فیصد عمارتیں زمین بوس ہو کر رہ گئیں۔ زراعت تقریباً 60 فیصد کم ہو گئی۔ بجلی بھی بند، سڑکیں تباہ اور بندرگاہیں ناقابل استعمال تھیں۔ انڈسٹری صفر پر پہنچ گئی، کرنسی بھی تقریباً ختم ہو چکی تھی۔

لوگ خرید و فروخت کے لئے بارٹر سسٹم پر مجبور ہو گئے۔ چیزیں دے کر چیزیں لی جاتی تھیں۔ جسے انگریزی میں کہتے ہیں۔ Good by Goods۔ مطلب چیز کے بدلے چیز، سامان کے بدلے سامان۔ اسکو بارٹر سسٹم کہتے ہیں۔ 1945ء سے 1955ء تک 10 سال جرمنی کے1 کروڑ 40 لاکھ لوگ کیمپوں میں پناہ گزین رہے۔ 1962ء تک جرمنی امریکی امداد پر چلنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا تھا۔

دنیا کے 14 ممالک جرمنی کو امداد دیتے تھے اور سب سے دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ان امداد دینے والے ملکوں میں ہمارا ملک پاکستان بھی شامل تھا۔ ایوب خان کے دور میں پاکستان نے 20 سال کے لئے جرمنی کو 12 کروڑ روپے قرض دئیے تھے۔ جرمن چانسلر نے اس مہربانی پر حکومت پاکستان کا باقاعدہ شکریہ ادا کیا تھا۔ وہ خط آج بھی وزارت خارجہ کے دفتر میں محفوظ ہے۔

1960 تک جرمنی پریشان کن حالات میں تھا تو جرمن حکومت نے پاکستان سے دس ہزار ہنرمند افراد مانگ لیے تھے۔ ایوب خان کی حکومت نے اپنے ورکرز جرمنی بھیجنے سے انکار کر دیا۔ جرمنی نے اس کے بعد ترکی سے درخواست کی تو ترکی کو جرمنی پر ترس آ گیا۔ ترکی کے لوگ جرمنی کی مدد کے لئے وہاں پہنچ گئے۔ چنانچہ آج بھی جرمنی میں تقریبا تیس لاکھ ترک لوگ موجود ہیں۔

اب سے 50 سال قبل جرمنی، پاکستان کو رقم واپس ادا نہ کرنے کی حالت میں تھا تو پاکستان کی تاریخ میں سب سے پہلے جنرل ایوب خان نے جرمنی ساتھ بارٹر سسٹم متعارف کروا کر اسکی مدد کی اور پاکستان نے اشیاء کے بدلے اشیاء لینے دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ آج جرمنی دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن کر کھڑا ہے۔ 2017 کے حساب سے جرمنی کا GDP 3400 بلین ڈالر ہے، جبکہ ہماری جی ڈی پی صرف 271 بلین ڈالر ہے۔

جرمنی کی سالانہ برآمدات 2100 ارب ڈالر ہے، جبکہ ہماری برآمدات صرف 20 ارب ڈالر ہے۔ اور تو اور بنگلہ دیش کی برآمدات ہم سے زیادہ 25 ارب ڈالر ہیں اور کرنسی بھی ہم سے بڑھ چکی ہے۔ جرمنی کے زر مبادلہ کے ذخائر 203 بلین ڈالر ہیں، جبکہ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 21 بلین ڈالر ہیں۔ جرمنی کی فی کس آمدنی 41178 ڈالر ہے۔ پاکستان کی فی کس آمدنی 1434 ڈالر ہے، آپ تصور کریں۔

50 سال پہلے ہم نے جرمنی کو 12 کروڑ روپے قرض دیا تھا، جبکہ آج جرمنی 12 کروڑ روپے تو کیا روزانہ کروڑوں روپے کی پروڈکٹس بنا کر فروخت کر رہا۔ آج وہ کہاں کھڑا ہے، ہم کہاں ہیں؟ ہم آج بھی باہر سے سب کچھ خرید رہے۔ جرمنی جیسا پتھر کے زمانے میں گیا ہوا ملک صرف پچاس سال میں دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن گیا۔ آج پاکستان کا یہ حال ایک دن میں نہیں ہو گیا۔

بلکہ ہمارے حکمرانوں کے شاہانہ خرچوں اور بادشاہوں جیسا رہن سہن کی وجہ سے پاکستان تباہ حال ہو گیا۔ ایک طرف پاکستان پر آدھا وقت فوجی حکومت رہی توآدھا وقت سول حکومت رہی۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے ادوار میں امریکہ، افغان وار میں حصہ لینے سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ "نون لیگ اور پی پی" ان 2 خاندانوں نے مل کر 35 سال حکمرانی کر کے اربوں ڈالر کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کر کے پاکستان کو بہت بھاری گزند پہنچایا۔

ہمارے نواز شریف صاحب کا اپنی سابقہ حکومت میں گوادر میں صرف ناشتے کا بل 35 لاکھ روپے بنا تھا۔ نواز، زرداری جب دوسرے ملکوں میں قرضے لینے جاتے تھے تو کروڑوں روپے شاہ خرچیوں میں اڑا دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ امریکہ کے اندر سفر کرنے کے لیے نواز شریف نے 10 لاکھ روپے فی گھنٹہ پر جہاز کرائے پر لیا تھا۔ کچھ غیر ملکی صحافی کہتے ہیں کہ پاکستانی حکمران قرض لینے اس طرح شان و شوکت سے آتے ہیں، جیسے وہ قرضہ لینے نہیں بلکہ ہمیں قرضہ دینے آئے ہیں۔

موجودہ حکومت شہباز شریف کابینہ جو کہ عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہے۔ جنکی تقریباََ 1600 ارب روپے کی کرپشن کے تمام کیسز یہاں کے طاقتوروں نے معاف کرا دئیے۔ شہباز شریف نے لاہور میں 3 کیمپ آفس بنا لیے۔ اپنی حفاطت پر مامور 3200 سکیورٹی اہلکار تعینات کر لیے۔ اپنے گھر سومنگ پول کی تزئین و آرائش پر 7 کروڑ 50 لاکھ روپے خرچ کر ڈالے۔

مفتاع اسماعیل نے سرکاری خزانہ سے اپنے گھر کی تزئین و آرائش پر 48 لاکھ خرچ ڈالے۔ مریم صفدر کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے تاہم اسکو وزیراعظم کے برابر پروٹوکول دے دیا۔ شہباز حکومت نے میڈیا پر 2 ماہ میں 2 ارب کے بلاوجہ اشتہارات چلا دئیے اور صحافیوں کو نواز دیا۔ اخے عمران خان خزانہ خالی چھوڑ گیا۔ پاکستان کی تاریخ کا ریکارڈ خزانہ عمران خان اپنی حکومت میں صرف 3 سال میں 22 ارب ڈالر چھوڑ کر گیا۔

عمران خان نے اپنے 3 سال میں ایف بی آر ٹیکس ریوینیو 6125 ارب روپے اکٹھا کیا۔ نون لیگ نے پچھلے 5 سال میں 3844 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا۔ پی پی نے پچھلے 5 سال میں صرف 1946 ارب روہے ٹیکس اکٹھا کیا۔ اب ایک ماہ میں تین بار انڈیا کا جہاز فنی خرابی کے بہانے کراچی لینڈ کر گیا، جسکے ذریعے پاکستان سے ڈالر باہر منتقل کیے جا رہے۔ ہمارا روپیہ گرتا جا رہا اور ڈالر مہنگا ہوتا جا رہا۔

اینکر ارشد شریف کی رپورٹ کے مطابق ایک چونکا دینے والی خبر ہے کہ ہمارے آئی ایس پی آر نے 2020 میں 5 منٹ سے بھی کم دورانیہ کا ایک گانا تیار کیا، جس پر لاگت 1 کروڑ 23 لاکھ روپے آئی۔ ٹیکس کا پیسہ کہاں کہاں برباد کیا گیا۔ حیرت ہے کہ عوام ان سب کو اپنامسیحا جانتی ہے۔ ان سب سے اگر اچھا طرز حکومت رہا ہے تو وہ عمران خان کا 3 سالا دور حکومت ہے۔

2 سال کورونا وائرس کے باوجو د پاکستان کی معیشت بہتر ہو رہی تھی۔ گزشتہ دو سال میں پاکستان کی ایکسپورٹ نے گزشتہ 17 سال کا ریکارڈ توڑ دیا۔ عمران خان نے میڈیا پر کوئی اشتہارات نہیں چلائے۔ کوئی ایک بھی بیرونی پرائیوٹ دورہ نہیں کیا نہ بیرون ملک سے کبھی اپنا علاج کرانے کی غرض سے سرکاری پیسے کا ضیاع کیا۔ نہ ہی وزیراعظم ہاؤس میں شاہانہ پروٹوکول لیا۔

نہ ہی دوسروں کی طرح جگہ جگہ اپنے کیمپ آفس بنائے۔ وہ صبح اپنے گھر سے صرف ایک ڈائری ہاتھ میں پکڑ کر آفس آ جاتے اور شام کو اپنے گھر واپس چلا جاتے۔ انہوں نے بالکل سادہ طرز حکومت اور رہن سہن رکھا۔ وہ پاکستان جو ماضی میں جرمنی جیسے مضبوط ملک کو قرضہ دیتا تھا۔ آج وہ ڈیفالٹ ہونے میں چوتھے نمبر پر آ چکا ہے۔

اب 9 اپریل 2022 کے بعد شہباز شریف کی حکومت میں 2 ماہ بعد ملکی خزانہ میں تقریباً 7 ارب ڈالر رہ گیا۔ اِس حکومت میں صرف 2 ماہ میں ہی پاکستان کو بہت سخت جھٹکا لگ گیا۔ اس وقت ڈالر 250تک گردش کر رہا۔ پاکستان کی معیشت تباہ ہو چکی۔ انڈسٹری، کاروبار ٹھپ، ڈالر مہنگا ہونے سے بیرونی قرضوں میں اضافہ ہونے کے ساتھ بیرونی اشیاء کی خرید پر موجودہ حکومت نے پابندی لگا دی ہے۔

جس سے کاروباری حضرات کو بہت سی مشکلات پیدا ہو چکی۔ اس وقت سری لنکا آپکے سامنے ڈیفالٹ ہو چکا ہے۔ اسکی بھی یہی وجہ تھی کہ وہاں ایک سے دو خاندان گزشتہ 30۔ 40 سال سے حکمرانی کر رہے تھے۔ جو کرپشن سے لتھڑے پڑے تھے۔ انکی بدعنوانیوں کی بدولت سری لنکا آج تباہ ہو گیا۔ وہاں کی عوام نے تنگ آ کر حکمرانوں کے گھروں کو جلا دیا۔

انکو پکڑ کر خوب دھلائی کی کسی کو جان سے مار دیا تو کسی کو زندہ جلا دیا۔ کسی کی املاک کو جلا کے راکھ بنا دیا۔ پورے ملک میں ہنگامے انتشار فسادات پھوٹ پڑے۔ آخر عوام یہ سب کرنے پر مجبور ہو گی، کیونکہ اُن کرپٹ حکمرانوں نے ملک و قوم کو لوٹنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا تو بالاآخر عوام نے تنگ آ کر پورے ملک میں جنگ کا ماحول بنا دیا۔

آج سری لنکا کے تمام تعلیمی ادارے بند ہیں۔ سرکاری و پرائیویٹ اداروں سے لے کر کاروباری سرگرمیاں تعطل کا شکار ہیں۔ عوام بیچاری بھوک سے بلک کر سڑکوں پر خوار ہو رہی۔ آج سری لنکا، جس دوراہے پر کھڑا ہے اللہ نہ کرے کہ پاکستان میں بھی ایسے حالات پیدا ہوں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی اپنے حبیب ﷺ کے صدقے ملک پاکستان پر رحم فرمائے اور یہاں کے ارباب اختیار کو راہ ہدایت نصیب کرے۔

Check Also

Lathi Se Mulk Nahi Chalte

By Imtiaz Ahmad