Bachon Ki Hukumat
بچوں کی حکومت
کہیں دینپور نام کا ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ جہاں لوگوں کو بہت سے مسائل تھے۔ کہیں جگہ جگہ کچرا پڑا تھا۔ کہیں نالیوں سے گندا پانی نکل رہا تھا۔ راستوں کا برا حال تھا۔ پینے کو پانی صاف نہ تھا۔ سکولوں کی عمارتیں گرنے والی تھی۔
وہی دین پور سکول کے بچے ان مسائل کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ وہ ہمیشہ سوچتے رہتے تھے کہ ان مسائل کو کیسے حل کیا جائے۔ چھٹی جماعت کا پاک گروپ اپنے مسائل لے کر اس علاقے کے ڈی سی صاحب کے پاس گئے۔ بچوں نے جب ڈی سی صاحب سے مدد مانگی مگر ڈی سی صاحب کہنے لگے کہ میں کیا کروں۔ مجھے آگے ہی بہت کام ہیں۔ تم لوگ جاو یہاں سے تنگ نہ کرو۔ میرے پاس ان چھوٹے چھوٹے مسائل کےلیے وقت نہیں۔ ابھی تم لوگ بچے ہو، جاو جا کر کھیلو۔ اور یہ بچوں کے سوچنے کا کام نہیں۔ یہ سن کر پاک گروپ میں سے احمد سمجھداری سے بولا، معاف کیجئے گا ڈی سی صاحب اگر آپ ان چھوٹے مسائل کا حل نہیں نکالیں گے تو پھر یہ مسئلے پہاڑ بن جائیں گے۔ ایسے میں پھر کچھ بھی نہیں ہو پائے گا۔ ہمیں انہیں بیٹھ کر سمجھ داری سے حل کرنا ہو گا۔
احمد کی بات سن کر ڈی سی صاحب کو بہت غصہ جاتا ہے۔ وہ کہنے لگتا ہے کہ اگر تم لوگ اتنے ذہین ہو تو خود کیوں نہیں ان مسائل کو حل کر لیتے۔ پاک گروپ سے آمنہ فورا بولی ٹھیک ہے مگر ہمیں ایک ہفتے کی حکومت چاہے۔
ڈی سی صاحب غصے میں بولے، یہ لو آج سے میں تم لوگوں کو ایک ہفتے کے لیے اپنی کرسی دیتا ہوں۔ نکالو اب حل۔ اگر تم لوگوں سے اس ہفتے میں ایک بھی مسئلہ حل ہو گیا تو میرا نام بدل دینا۔ ڈی سی صاحب کے اس اعلان کے بعد جب یہ خبر علاقے کے لوگوں کو پتا چلی۔ پہلے تو وہ سب ہنسنے لگے کہ اب بچے ہمارے مسائل کرے گے۔ اب احمد لوگوں کا گروپ بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اب کیا ہو کر ے۔ تو نور پریشانی سے بولی، ڈی سی سے ہمیں الجھنا نہیں چاہیے تھا۔ ہم نے خود ہی مشکل اپنے سر لے لی ہے۔ علی نے بھی نور کی حمایت کی۔
پہلے تو بچوں نے جوش میں کہہ دیا کہ وہ سب مسائل کو حل کر لیں گے مگر اب جب مشکل سر پر آن پڑی تھی تو انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ تو عشاء اٹھتے ہوئے بولی اب بھی موقع ہے، ڈی سی سے معافی مانگ لیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے وہ ہمیں معاف کر دیں گے اور اپنا فیصلہ واپس لے لیں گے۔ تو احمد بولا نہیں رک جاو ہم معافی نہیں مانگیں گے کیونکہ ہم نے کچھ غلط نہیں کیا۔ اور ہم مل کر کوئی نہ کوئی حل ضرور نکال لیں گے۔
یاد کرو کہ ہم ان مسائل کو حل کرنے کے بارے میں کیا سوچتے تھے۔ اور پھر ہم ان طریقوں پر عمل کرکے ان مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ اور وہ سب کام میں لگ جاتے ہیں۔ اور پھر اس طرح وہ مسائل کو حل کر لیتے ہیں۔ ان کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہوئی مگر انہوں نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
بچوں کی حکومت کے آخری دن ایک جلسہ ہوا جس میں پوری عوام اور ڈی سی صاحب بھی تھے۔ جس میں کچھ اعلان ہوئے۔ اور پھر اسی کے ساتھ بچوں کی حکومت ختم ہو جاتی ہے۔ اس بچوں کی حکومت کے بعد وہ علاقہ خوش گوار ہو گیا اور اس علاقے کو ایک نیا نام دیا گیا جو تھا بچوں کی حکومت تھا۔