Wednesday, 16 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mojahid Mirza
  4. Waqiat Aur Asbaq

Waqiat Aur Asbaq

واقعات اور اسباق

غالباََ 1974 کی بات ہے۔ میں ملتان کے نشتر میڈیکل کالج میں آخری سال کا طالبعلم تھا۔ لاہور اور ملتان کے درمیان ریل کار "غزالہ" چلا کرتی تھی۔ میں لاہور سے اس میں سوار ہوا تھا۔ نشتر کا کوئی اور طالبعلم بھی آ کر میرے سامنے والی نشست پر بیٹھ گیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں کوئی ڈائجسٹ رسالہ تھا۔ ہم زیادہ شناسا نہیں تھے البتہ شکلیں پہچانتے تھے۔ تھوڑی دیر گپ شپ ہوئی تھی۔ اس اثناء میں گاڑی شہر سے نکل کر فراٹے بھرنے لگی تھی۔

میں اس سے رسالہ مانگ کر ورق گردانی کرنے لگا تھا۔ اچانک کسی مرد کی گھبرائی ہوئی چیخ بلند ہوئی تھی۔ میں نے اضطراری طور پر کھڑکی سے باہر دیکھا تھا تو اسی پٹڑی پر سامنے سے پوری رفتار سے دوسری مسافر گاڑی آتی دکھائی دی تھی۔ ریل کار کے ڈرائیور نے ہوش سے کام لیتے ہوئے گاڑی کو بریک لگا کر اسے پیچھے کی جانب چلابنا شروع کر دیا تھا۔ میں بھی سب کے ساتھ بھاگ کر دروازے میں سے کود جانے والے پہلے لوگوں میں سے تھا۔

ریل کار کی رفتار تیز ہو رہی تھی۔ ایک آدمی نے اپنا سال ڈیڑھ سال کا بچہ اچھالا تھا جسے میں نے جھپٹ لیا تھا۔ سامنے سے آنے والی گاڑی جو غالباََ خیبر میل یا تیز رو تھی، یاد نہیں، رک گئی تھی۔ ایک آدمی نے تیز ہو چکی ریل کار کی کھڑکی سے ایک ٹانگ باہر لٹکائی ہوئی تھی، ساتھ ہی چہرہ بھی۔ میں نے اسے چیخ کر روکا تھا کہ اب خطرہ نہیں ہے۔

اب گاڑیاں دو مختلف پٹڑیوں پر آ گئی تھیں۔ ہم پھر سے ریل کار میں سوار ہو گئے تھے۔ جاتے ہوئے ہمیں ریسکیو ٹرین بھی آتی ملی تھی جس میں سفید کوٹوں میں ملبوس طبی عملہ سوار تھا۔ ریل کار سٹاپ نہ ہوتے ہوئے، شاید رپورٹ کرنے کی خاطر پتوکی سٹیشن پر رکی تھی۔ لوگوں احتجاج کرتے ہوئے پٹڑی پر لیٹ گئے تھے، جن میں اس بچے کا باپ بہت جذباتی تھا جسے میں نے جھپٹ لیا تھا ویسے میں زندگی میں گیند بھی نہیں جھپٹ پایا۔

سبق: انسان غلطیاں کرتا ہے مگر بچانے والا دوسروں کو اس غلظی کا خمیازہ بھگتنے سے بچا لیتا ہے۔

گلگت میں ایک بستی ہے۔ کہنے کو وہ تحصیل ہے۔ نام اس کا ہے استور۔ وہاں پاک فوج کی 80 بریگیڈ تعینات تھی۔ یہ بات ہے 1976 کی۔ ہمارا فیلڈ ایمبولیس یونٹ استور سے دس پندرہ کلومیٹر دور گوری کوٹ میں تھا۔ میں درہ برزل کے اس پار جانے سے گریزاں تھا۔ کرنل کے ساتھ ایک شدید چپقلش اور بحث و تمحیص کے بعد میں گلتری جانے پر رضامند ہوا تھا۔ میجر چیمہ اور نیوی کے لیفٹیننٹ خالد نے ہیلی کاپٹر استور ہیلی پیڈ پر اتارا تھا۔ اس میں سے بریگیڈیر داؤد اور گلگت سے آئے کرنل ضیاء اتر کر دفاتر کی جانب چلے گئے تھے۔

میں میجر چیمہ سے گپ لڑانے لگا تھا اور ان سے کہا تھا کہ آج میں آپ کے ہمراہ "آگے" جاؤنگا۔ انہوں نے مذاق میں کہا تھا، میں تم سے "کریمینل" کو اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتا۔ میں اچک کر ہیلی کاپٹر میں کوپائلٹ کی سیٹ پر سوار ہو کر بیلٹ باندھنے لگا تھا اور کہا تھا، "سر آج تو آپ مجھے لے کر ہی جائیں گے"۔ میجر چیمہ نے بوکھلا کر کہا تھا، "اتر ڈاکٹر، کمانڈر آ رہے ہیں"۔ میں اتر کر کھڑا ہوگیا تھا۔ بریگیڈیر داؤد نے چھڑی لہرا کر کہا تھا، " کیپٹن مرزا، آپ آج نہیں جائیں گے کیونکہ میں کرنل ضیاء کو ریکی کے لیے اپنے ساتھ لے آیا ہوں"۔ میجر چیمہ نے میرا منہ چڑایا تھا اور میں مسکرا دیا تھا۔

ہم افسروں نے سیلیوٹ کیا تھا اور ہیلی کاپٹر بلند ہو کر مڑ گیا تھا۔ میں پچاس ساٹھ قدم پر واقع ایم آئی (میڈیکل انسپکشن) روم پہنچا تھا اور ٹوپی اتار کر رکھتے ہوئے کہا تھا، "صدیق، چائے لاؤ"۔ ابھی کرسی پر بیٹھنے کو تھا کہ ہر طرف سے سیٹیاں بجنے لگی تھیں۔ یہ ایمرجنسی تھی۔ میں ٹوپی سنبھالتا ہوا باہر نکلا تھا اور جو جیپ مجھے گوری کوٹ سے لے کر آئی تھی، اس میں بیٹھ کر ڈرائیور کو حکم دیا تھا، " چلو"۔

فوجی اور عام لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ ہم بھی ایک سمت چل گئے تھے۔ گاڑی رکوائی تھی۔ ایک پہاڑی پر چڑھا تھا۔ پھر اس سے نیچے اترا تھا اور پھر دوسری پاڑی پر چڑھ کر اس کی چوٹی پر پہنچا تھا۔ نیچے دیکھ کر سر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا۔ نیچے دریا کے کنارے اس ہیلی کاپٹر کے ٹکڑے ہوئے پڑے تھے جس میں مجھے سوار ہونا تھا۔ ہیلی کاپٹر کے ملبے تک پہنچنے سے پہلے میں نے جیب سے ڈاک کا لفافہ نکالاتھا جس میں اپنی ماں کو خط لکھا تھا۔ باقی باتوں کے علاوہ لکھا تھا، "شاید یہ میرا آپ کو آخری خط ہو"۔

میں نے وہ خط ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہوا میں بکھیرا تھا اور نیچے اترا تھا۔ صرف لیفٹیننٹ خالد میں جان تھی، جن کو چادر میں ڈال کر لوگ لے کر اوپر چڑھ رہے تھے۔ مجھے ڈی کیو نے حکم دیا تھا، اوپر جاؤ اور انہیں بچاؤ۔ میں اتنی چڑھائی اترائی سے تھک چکا تھا مگر چڑھنے لگا تھا۔ ایک مقامی آدمی نے کہا تھا، سر میری کمر پر سوار ہو جائیں۔ میں نے سوال کیے بغیر ایسا ہی کیا تھا وہ بندر کی سی چستی کے ساتھ مجھے لے کر اوپر گیا تھا مگر لیفٹیننٹ خالد اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔

سبق: آپ کچھ نہیں جانتے، جاننے والا آپ کی شاید کو شاید ہی رہنے دیتا ہے۔

ایران، جزیرہ لاوان، سال 1982۔ میں آئل کمپنی کے چارٹرڈ طیارے میں تہران جا رہا تھا۔ طیارے میں میرے ساتھ کیپٹن مہستی بیٹھے ہوئے تھے جو آئل کمنی کے ہیلی کاپٹر کے پائلٹ تھے۔ میں نے بتایا تھا کہ مجھے پائلٹ بننے کا شوق تھا اور کاک پٹ دیکھنے کی خواہش کا ذکر کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ طیارے کا کیپٹن ان کا دوست ہے۔ وہ ابھی خواہش پوری کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، یوں میں پہلی بار پرواز کناں طیارے کے کاک پٹ میں دسیوں منٹ بیٹھا تھا۔

کیپٹن مہستی نے پوچھا تھا کہ کیا تہران ایرپورٹ پر کوئی تمہیں لینے آئے گا۔ میرا جواب نفی میں تھا۔ مجھے آئل کمپنی کے ایک پاکستانی ملازم حاجی غفور نے ایک اور پاکستانی خالد سعید صاحب کا ایڈریس دیا تھا کہ ان کے ہاں قیام کر لینا۔ کیپٹن مہستی نے کہا تھا کہ انہیں گاڑی لینے آئے گی چنانچہ وہ مجھے مطلوبہ مقام پر پہنچا دیں گے۔ خالد سعید صاحب کے مکان کا نمبر تیرہ تھا۔ بہت دیر ڈھونڈنا پڑا تھا پر نہیں مل رہا تھا۔ یک لخت کیپٹن مہستی کو خیال آیا تھا کہ اوہ تیرہ کا ہندسہ ایران میں منحوس تصور کیا جاتا ہے، اس لیے 12+1 ڈھونڈا جائے۔ یوں ہمیں گھر مل گیا تھا۔

تقریباََ دو ہفتے بعد کیپٹن مہستی آئل کمپنی کے ہیلی کاپٹر میں اپنی بیوی بچے کو بٹھا کر دبئی فرار ہو گئے تھے۔ شکر ہے میں ان کا پرانا شناسا نہیں تھا وگرنہ پاسداران کی تفتیش میں شامل کر لیا جاتا۔

سبق: کسی کا احسان لینے سے بہتر ہے کہ خود ہمت کر لیں۔

روس، ماسکو، میں نے چند دوسرے پاکستانیوں کے ساتھ ایک ہوٹل کا فلور کرائے پر لے کر "سب لیٹ" کرنے کا کام کیا تھا۔ اس ہوٹل میں عموماََ کرج، ایران کے دھوکہ باز لٹیرے آ کر رہتے تھے۔ وہ کنبے کے کنبے دنیا بھر کے ملکوں میں جا کر لوگوں کو باتوں میں لگا کر، ہاتھ کی صفائی دکھاتے ہوئے ان کے کرنسی نوٹوں پر ہاتھ صاف کر لیتے ہیں۔ اپنے اس کام کو وہ "گشت پر جانا" کہتے ہیں۔

ایک روز اس ہوٹل میں ایک امریکی آیا تھا۔ اس نے اپنے طور پر ہوٹل کا کمرہ کرائے پر لیا تھا لیکن میری اس سے علیک سلیک ہوگئی تھی۔ ایک دو بار جا کر اس کے کمرے میں چائے بھی پی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ بحری جہازوں کی خرید و فروخت کا کام کرتا ہے۔ میرے ذہن میں یہ بات آئی ہی نہیں کہ اتنا بڑا کام کرنے والا تھری سٹار ہوٹل میں کیوں رہ رہا ہے۔ آدمی اچھا لگتا تھا۔

میں نے ہوٹل چھوڑ دیا تھا۔ ایک روز اخبار میں پڑھا کہ وہ امریکہ کا جاسوس تھا جو روس کے بحری راز چرا رہا تھا اور اسے پندرہ سال کی سزائے قید دے دی گئی ہے۔ پھر روس کی ایک جاسوس خاتون اپنے نیٹ کے ساتھ امریکہ میں پکڑی گئی تھی۔ جاسوسوں کے تبادلے میں اس امریکی کو پوتن کے خصوصی حکم پر رہا کرکے امریکہ بھیجا گیا تھا۔ اس روز تک میں خائف رہا تھا کہ کہیں مجھے بھی مشکوک نہ سمجھ کر دھر لیا جائے۔

سبق: صرف ان غیر ملکیوں سے تعلق بنائیں جن کے بارے میں پہلے سے معلوم ہو کہ وہ کون ہیں اور کیا کرتے ہیں۔

Check Also

Waqiat Aur Asbaq

By Mojahid Mirza