Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mojahid Mirza
  4. Shajar e Mamnua Se Raghbat Na Rahi

Shajar e Mamnua Se Raghbat Na Rahi

"شجر ممنوعہ" سے رغبت نہ رہی

یہ وہ شجر ممنوعہ نہیں ہے، جس کا پھل چکھنے بلکہ اس کے قریب تک جانے سے روکا گیا تھا۔ ہمارے پیشرو مذہب نے اسے سیب بنا ڈالا اور ہم نے نمعلوم کیسے "شجر ممنوعہ" کو "دانہ گندم" سے بارور کر ڈالا، شاید عربی یا قدیم عربی میں"بوٹے" کو ہی شجر کہا جاتا ہو۔

بہرحال ہمارا موضوع جنت کا پھل یا دانہ گندم نہیں ہے لیکن جس شجر ممنوعہ کا تذکرہ ہے، اس پہ ہاتھ ڈالنے کی سزا بھی آسمان سے زمین پہ دے مارنا ہو سکتی ہے لیکن محمود اچکزئی صاحب نے تو "آسمان" پہ "بھاڑ میں جائے" کہہ کر خود ہی تھوک ڈالا ہے البتہ "شجر ممنوعہ" کو پروان چڑھانے والوں کو بقول اخبارات کے دو تین سال کی اور بقول نصرت جاوید کے جنہوں نے اپنے کانوں سے سب کچھ سنا، ڈیڑھ دو سال کی مہلت دے دی ہے کہ یا تو شجر ممنوعہ کو آنکھوں سے یکسر اوجھل کر دو یا اس پہ پتھر پھینکنے کی مناہی سے ہاتھ اٹھا لو بصورت دیگر آپ کا آسمان آپ کو مبارک میں"اپنی دھرتی" کو لوٹ جاؤں گا۔

اویس لغاری کے کہنے پہ انہوں نے "اسمبلی جائے بھاڑ میں" کے الفاظ واپس لے لیے اگرچہ ہم ہمیشہ سے یہی سنتے آئے ہیں کہ کمان سے نکلا ہوا تیر اور منہ سے نکلا ہوا لفظ واپس نہیں ہوتا لیکن اسمبلی چونکہ عام زمین نہیں بلکہ پاکستان جیسے ملکوں میں کچھ کچھ آسمان سے مشابہ ہوتی ہے اس لیے وہاں نہ تو زمین کے سارے اصول چلتے ہی اور نہ ہی محاورے کارگر ہوتے ہیں۔

پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں اور خاص طور پہ ایک "آئی ایس آئی: فکر فردا سے رہائی" پر زمین سے تو تنقید کیے جانے کا رواج ہوگیا تھا لیکن "کچھ کچھ آسمان سے مشابہ" مقام یعنی ایوان ہائے اقتدار میں اس سے متعلق کھری کھری سنانے کا چلن نہیں تھا، ہاں البتہ شلغموں سے مٹی جھاڑے جانے کا عمل گذشتہ حکومت کے عہد کے دوران کبھی کبھار کیا جاتا رہا تھا جیسے کے ایک بار "آئی ایس آئی: فکر فردا سے رہائی" کے سابق سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا نے قومی اسمبلی میں آ کر اراکین اسمبلی کے منہ بند کرائے تھے۔

متوسط طبقے کے سیاستدان ڈاکٹر عبدالمالک کا صوبہ بلوچستان کا وزیر اعلٰی بننا اور اچکزئی صاحب کے بھائی کا اس صوبے کا گورنر بننا نہ تو علیحدگی پسند قوم پرستوں کو اچھا لگا اور نہ ہی ان کو جن پر ان کا ہاتھ ہے جن کے بارے میں اچکزئی صاحب نے کھل کرکے کہا کہ کرنل امام نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ انہوں نے 95 ہزار جنگجووں کو خطرناک ترین ہتھیار استعمال کرنے کی تربیت دی تھی۔ اب یہ کرنل امام کون تھے اور کس ادارے سے وابستہ تھے کس کے کہنے پہ کیا فرائض سرانجام دیے یا کیا گل کھلائے اور پھر کون انہیں لے ڈوبا، اکثر لوگ ان سوالوں کے جوابات سے نا آشنا نہیں ہیں۔

کہنے کو تو جناب اچکزئی نے یہاں تک کہہ کرکے کہ ہماری ایجنسیاں تو گدلے پانی میں سے سوئی تک تلاش کر لیتی ہیں تو پھر یہ دہشت گردیاں کیوں ہو رہی ہیں اور کون کروا رہا ہے، بہت کچھ کہہ ڈالا ہے لیکن کیا اس سب کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے تو نہیں نکال دیا جائے گا؟ دیکھیے بیس جون کو طاقت سے وابستہ تمام اداروں کے سربراہوں کا اجلاس بلایا گیا ہے جس کے بارے میں"بولتا پاکستان" میں بات کرتے ہوئے مشتاق منہاس نے کہا تھا، " مجھے امید ہے، امید رکھنی بھی چاہیے لیکن کچھ اتنی بھی امید نہیں ہے" مشتاق منہاس امید کے بارے میں فیصلہ کرنے میں متذبذب تھے لیکن میں نہیں ہوں اس لیے برسر عام کہتا ہوں کہ امید ان سے رکھی جاتی ہے جن کی جانب سے رکھی گئی کوئی امید کبھی پوری ہوئی ہو۔

سٹیٹس کو کو اپنے وابستہ مفادات کی خاطر برقرار رکھنے والوں سے بھلا کس بھلے کی امید کی جا سکتی ہے۔ جمہوری حکومتوں پہ بعض اوقات ایسے کڑے وقت آ جایا کرتے ہیں جب بہت سخت اور عوامی سطح پہ غیر مقبول فیصلے لینے پڑتے ہیں۔ کیا موجودہ حکومت میں اور موجودہ اسمبلی میں ہمت ہے کہ وہ تمام مذہبی تنظیموں پہ پابندی لگائے اور مستقبل قریب میں ان سے وابستہ لوگوں کو کسی بھی قسم کی تنظیم بنانے سے منع کر سکے۔ کیا قومی اسمبلی دہشت گردی کے خلاف نئے قانون بنا سکتی ہے۔ کیا تمام سیاسی پارٹیاں اور ان سے وابستہ کارکن ایسے مشتبہ لوگوں سے رابطے منقطع کرکے ان کی سرگرمیوں بارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلع کر سکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پرانے ڈھانچے اور پرانے اہلکاروں سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنا وطیرہ تبدیل کر پائیں گے؟

مایوسی کفر ہوتی ہے لیکن جب ہر جانب مایوسی کے ستون گڑے ہوں تو ان پہ امید و بیم کے جھولے کیونکر ڈالے جا سکتے ہیں؟ مایوسی کے ان تمام ستونوں کو ایک ایک کرکے اکھاڑنے کے راستے تو اچکزئی صاحب نے گن گن کر بتا دیے ہیں مثلاََ یہ کہ پاکستان کو افغانستان سے نگاہیں اٹھا لینی چاہییں اور بھی بہت کچھ۔ افغانستان پہ نگاہیں رکھنا تو خارجہ پالیسی کا حصہ ہے جس کا عسکری پہلو زیادہ اجاگر ہے جو بہت کم بصارت کے حامل فرد پہ بھی واضح کر دیتا ہے کہ خارجہ پالیسی کون بناتا ہے۔ تو کیا ہم یہ امید رکھ لیں کہ فوج اپنا کعبہ درست کر لے گی اور سیاستدانوں کو آزاد خارجہ پالیسی مرتب کرنے دے گی؟

اچکزئی صاحب تو ڈیڑھ دو سال بعد قومی اسمبلی پہ تین حرف بھیج کرکے کوئی اور راہ اپنا لیں گے لیکن پاکستان کے وہ تمام سیاستدان جو نیا کرنے کی ماسوائے اس سے متعلق نعروں کے اور کچھ نہیں کر سکتے وہ بھی اچکزئی کے راستے کو اختیار کریں گے، ارے بھئی قومی اسمبلی کو خیر باد کہنے کی راہ کو نہیں بلکہ کلمہ حق کہنے کی راہ کو؟ کہہ کرکے دکھائیں، پھر دیکھو کیسے ان سب کو آسمان سے زمین پہ گرایا جاتا ہے۔ رجائیت پسندی حالات کے تناظر میں ہی اختیار کی جا سکتی ہے ویسے نہیں چنانچہ میں قنوطیت پسند صحیح۔

Check Also

Tufaili Paude, Yateem Keeray

By Javed Chaudhry