Inqilab Se Toba Bhali
انقلاب سے توبہ بھلی
سیاستدانوں سے کالم نویسوں تک، علمائے دین سے عام آدمی تک سبھی انقلاب کی بات کرتے ہیں۔ کچھ تو ہر گلی کے کونے پہ اٹھارویں صدی کے انقلاب فرانس کی طرز کی گردن برید مشینیں یعنی گلوٹین نصب کروانے کی خواہش کا بارہا اور برملا اظہار کرتے دکھائی و سنائی دیتے ہیں۔ ملکی قیادت کو گلیوں میں گھسیٹے جانے کی باتیں کرتے ہیں۔ خونی انقلاب بپا ہونے کی نوید سناتے ہیں لیکن ان سب میں ایک بھی ایسا نہیں جو بتائے کے گردنیں کٹ گئیں، سڑکوں پہ قیادت کو گھسیٹے جانے کے نشان تاریخی یادگاریں بن گئے، خون بہہ گیا، بدروئیں خون سے سیاہی مائل سرخ ہوگئیں پھر اس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا قیادت عام لوگوں بیچ سے اپنے آپ ابھر کر سامنے آ جائے گی یا ایسے انقلاب کا اہتمام کرنے والوں کی کٹھ پتلیاں کسی اور کا نظام چلانے پہ مامور ہونگی؟ پھر کون سا اقتصادی نظام رائج رہے گا، وہی سرمایہ دارانہ، یا پٹا ہوا سوشلسٹ طرز اقتصاد یا پھر عہد جدید میں آزمائے جانے سے عاری نام نہاد اسلامی طرز؟ کیا ملک کا سیاسی انفراسٹرکچر یکسر تبدیل ہو جائے گا یا اس میں بتدریج تبدیلیاں نمودار ہوں گی؟ ملک کی سماجی نفسیات کیسے تبدیل کی جائے گی؟ غرض کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہیں ستم طریفی تو یہ ہے کہ سوال اٹھائے جانے کا عمل بھی بعد از انقلاب عہد پر رکھ چھوڑتے ہیں۔
انقلاب لوگوں کے نالاں ہونے، ان کی اکتاہٹ کے سبب یا ان کے بے حد تنگ ہو جانے سے نہیں آیا کرتے۔ انقلاب کے پس پشت سیاسی عمل اور انقلابی سیاست اور انقلاب پر یقین رکھنے والی کسی بھی پارٹی کا ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ بصورت دیگر حالیہ ادوار میں انقلاب کے نام پر جو خام مگر اچانک تبدیلیوں کے عمل سامنے آئے وہ ان مخصوص ملکوں میں نراجیت کو رواج دیے جانے اور سیاسی انفراسٹرکچر کو مزید کمزور کرنے کے لیے اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں عمل پذیر ہونے والی اغیار کی سازشیں ہیں۔ سازشیں تو انہیں اس عمل کے متاثرین یا ہمارے ایسے خدشات میں مبتلا لوگ کہہ سکتے ہیں لیکن اس عمل پہ جن کے دستخط ہوتے ہیں وہ اسے یا تو منصوبہ بندی کی تکمیل یا پھر تزویری عمل سے تعبیر کرتے ہیں اور درست کرتے ہیں چونکہ ہم تو بس لفظ رٹ لیتے ہیں اور اسے گزرے سانپ کی لکیر کی طرح پیٹے چلے جاتے ہیں۔
اگرچہ تیسری دنیا کی اصطلاح کمیونسٹ طرز حکومت کی شکست کے بعد کند اور متروک ہو چکی ہے تاہم سمجھانے کی خاطر اسے ہی استعمال کرتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان بھی ویسے ہی ملکوں میں شامل ہے جہاں کے اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی۔ یہاں یارلوگ پچاس لاکھ آبادی والے سنگا پور اور یکسر دوسرے مذہب والے ملک جنوبی کوریا کی ترقی کی مثالیں دینے لگ جائیں تو یہ ماسوائے کج بحثی کے اور کچھ نہیں کہلا سکتا۔ ہمارے ملک میں اکثریت کا جو مذہب ہے، دنیا کی اقتصادیات سے ہم آہنگ ہونے کے ضمن میں یہ بہت زیادہ رکاوٹوں کا موجب بنتا ہے۔
مثال کے طور پر ایران میں فی الواقعی انقلاب آیا تھا، اس کے پس پشت جہاں ایک طرف مذہبی گروہ تھے وہاں ایک بہت ہی منظم غیر مذہبی پارٹی حزب تودہ (ایران کی کمیونسٹ پارٹی) بھی تھی، جس کی حکمت عملی کے سبب ہی مذہبی گروہ متحد ہوئے تھے۔ ظاہر ہے انقلاب کے بعد اکثریتی عمومی مذہبی سوچ کی حامل آبادی کے بل بوتے پر اخوند حضرات نے پہلے حزب تودہ کو دھکا دے کر پیچھے کر دیا تھا، پھر اس کو راندہ درگاہ اور معتوب قرار دے ڈالا تھا۔ بہرطور باوجود اس کے کہ ایران میں انقلاب کے بعد بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد ہر شعبے میں مصروف عمل رہی، ان کے سر پہ چادریں اڑھا کر اور انہیں پابندیوں کا نشانہ بنا کر ایران نے اپنی اقتصادیات پہ پہلی ضرب لگا لی تھی۔ بعد کی باتیں تو بعد کی ہیں لیکن انقلاب کے بعد ایران آج تک نہیں سنبھل پایا ہے۔ افغانستان کی تو بات ہی کیا کرنی بیچارا انقلاب در انقلاب سے دوچار ہے لیکن جو کچھ افغانستان کا حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
ایک نظر ان ملکوں پہ بھی ڈالتے چلیں جہاں کی سماجی ہئیت مختلف ہے اور جہاں کے عوام کی اکثریت کا مذہب اسلام نہیں ہے۔ چیکو سلاویکیہ جو انقلابی عمل سے دو حصوں میں بٹا یعنی چیک ری بپلک اور سلاویکیہ، چیک ری پبلک کا دارالحکومت پراہا (پراگ) اگر سیاحتی مرکز نہ ہوتا تو اس ملک کا یورپی یونین میں شامل ہونے کے بعد بھی بہت دیر تک برا حال رہتا، سلاویکیہ تو بیچارہ، یورپی مالی امداد کے بل بوتے پر پچھلے چند سالوں سے ہی گھٹنوں کے بل چلنے کے قابل ہو سکا ہے۔ یوگوسلاویہ جو ایسے ہی ایک انقلاب کے بعد تین ملکوں سربیا، ہرواتیا (کروشیا) اور بوسنیا ہرزو گوینا میں بنٹ چکا ہے۔ سربوں کی بوسنیاؤں کے خلاف بہیمانہ انسانیت سوز سرگرمیوں سے اسلامی ملکوں کے علاوہ دیگر ملکوں کے لوگ بھی آگاہ ہیں۔ اس کے بعد سربیا کے ایک خطے کوسووو نے آزادی کا علان کر دیا تھا۔ جس کی یورپ اور امریکہ نے مدد کی اور سربوں کے ساتھ کم ازکم اخلاقی اور مادی طور پر روس تھا۔ کوسووو اور بوسنیا آج بھی منشیات مافیا کے گڑھ ہیں۔ سوویت یونین کی سابق ری پبلک گروزیا (جارجیا)، جہاں انقلاب گلاب آیا تھا، جارجیا کے لوگ دنیا بھر میں روزگار کے لیے دھکے کھاتے رہے ہیں، آب کہیں جا کر امریکہ کی مالی اور فنی امداد کے باعث جارجیا کے حالات بہتر ہوئے ہیں۔ یوکرین جہاں نارنجی انقلاب آیا تھا، اس کی صورت حالات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ملک کے جنوب مغربی حصے میں خانہ جنگی کے سے حالات ہیں اور باقی ملک اقتصادی اور سیاسی طور پہ ڈانواں ڈول ہے۔ کرغیزستان، وہاں بھی تھوڑا سا خونی لیکن زیادہ رنگین قسم کا انقلاب آیا تھا، اگر شنگھائی تنظیم تعاون اس کو سہارا نہ دیتی تو جو اس کا حال ہوتا بس خدا ہی جانتا ہے۔ رہ گئے مصر، تیونس، لیبیا، عراق تو وہاں جس طرح جوتیوں میں دال بنٹی اور عراق میں"داعش" کے انتہا پسند جس طرح شہروں پہ قبضہ کرتے چلے گئے اور جس طرح لوگوں کا قتل عام کیا تو کیا ایسا پاکستان کو ایسا انقلاب درکار ہے؟
اشتعال انگیزی، جذباتی اور نعرہ نما گفتگو، انقلاب کی حقیقت کو سمجھے بنا انقلاب کی خواہش کرنا بلکہ اس کے بارے میں ہانکنا یہ سب کسی طرح بھی مثبت رویہ نہیں۔ ایسی گفتگو کرنے والے سیاستدان ہوں، کالم نگار ہوں یا علمائے دین، سبھی اتنے باوسائل ہیں کہ حالات خراب ہوتے ہی بال بچوں سمیت "محفوظ مقامات" پہ منتقل ہو سکتے ہیں لیکن جان پہ عوام کی بن آئے گی۔ جب حالات خانہ جنگی کے سے ہو جاتے ہیں تو طاقت کے مراکز انقلابی بلکہ تخریبی "فیلڈ کمانڈرز" کے ہاتھوں میں مرتکز ہو جایا کرتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ گفتگو کرتے ہوئے اور تحریر کرتے ہوئے متوازن رہا جائے۔ غیر ذمہ دارانہ مشتعل کن باتوں سے احتراز کیا جائے۔ جو حالات ہیں ان میں سب سے زیادہ ذمہ داری پڑھے لکھے لوگوں خاص طور پر صاحب قلم اور صاحب بیان افراد یعنی تجزیہ نگاروں اور اینکر پرسنز پہ عائد ہوتی ہے۔ اگر وہ عملیت پسندی اور عقلیت پرستی سے کام لیں تو لوگوں کی عقل ٹھکانے لائے جانا کوئی اتنا مشکل کام نہیں۔ ہاں البتہ اگر ان لوگوں نے بھی کسی اور کی انگلیوں پہ لپٹے رہنے کا چلن اپنایا ہوا ہے تو پھر ہم سب کا اللہ حافظ ہے۔
انقلاب چاہے اسلامی ہو یا سوشلسٹ، کیونکہ سرمایہ دارانہ انقلاب نام کی کوئی شے وجود نہیں رکھتی، تو اس سے کسی نہ کسی فریق پہ شدید زد پڑا کرتی ہے۔ اگر انقلاب اسلامی ہو تو وہاں کا حال ایران کا سا ہوتا ہے کہ لبرل خیالات کے لوگ یا تو دوسرے ملکوں میں پناہ لے کر اس انقلابی حکومت کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتے رہتے ہیں اور اگر ملک میں ہوں تب یا زندان میں ہوتے ہیں یا دار پہ کھینچے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر انقلاب سوشلسٹ لائیں تو مذہبی لوگوں کے لیے شدید مشکلات پیدا کرنے کا باعث بنا کرتا ہے جس کے خلاف مذہبی حلقوں کا رد عمل اسے خانہ جنگی کی جانب لے جا سکتا ہے۔ چنانچہ ہمیں چاہیے کہ متوازن ہو کر جمہوری عمل کے تسلسلی کی بات کریں تاکہ کم از کم ہمارے بچوں کے بچے تو ایک خوشگوار اور خوشحال فضا میں زندگی بسر کر سکیں ورنہ نسلوں تک معاملات غیر مستحکم، بے یقینی سے عبارت اور انسانوں کے لیے ناقابل قبول ہی رہیں گے۔ اگر کوئی متبادل نہ ہو تو انقلاب سے توبہ ہی بھلی۔