Alfaz He Maane Khez Hote Hain
الفاظ ہی معنی خیز ہوتے ہیں
زبان اظہار کے لیے ایجاد ہوئی مگر الفاظ اظہار کی وضاحت کے لیے وضع ہوئے وگرنہ اشاروں کی زبان ہی کافی تھی۔
سوچ سے سوچ کا براہ راست رابطہ کب ہوگا فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر لفظوں کی معنی خیزی کے ضمن میں اتنا عرض ہے کہ کہیں ایران میں دماغ کے لیے لفظ دماغ استعمال نہ کر لیں کیونکہ زبان فارسی میں دماغ ناک سے خارج ہونے والی آلائش کے معانی میں آتا ہے البتہ جسے ہم دماغ کہتے ہیں اسے صریح زبان میں مغز کہا جاتا ہے۔
جسے ہم طب کی زبان میں چہار مغز کہتے ہیں، ان چاروں اجزاء کو فارسی میں علیحدہ علیحدہ تخم ہی کہتے ہیں جیسے مرغی کے انڈے کو تخم مرغ کہتے ہیں۔ ایران میں جب کسی نے میرے سامنے چائے رکھی اور ساتھ ہی کہا کہ "چائے غلیظ است" تو مجھے جھٹکا لگا لیکن موصوف یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ دودھ زیادہ پڑ گیا، گاڑھی ہوگئی۔
آپ نے دیکھا کہ ہماری زبان اردو کا ایک منبع ہوتے ہوئے بھی اصل زبان میں جس سے الفاظ اخذ کیے گئے ہوں الفاظ کے معانی کس قدر بدل جاتے ہیں یا اس کے برعکس کہہ لیں کہ الفاظ جب دوسری زبان میں منتقل ہوتے ہیں تو ان کے معانی کس قدر بدل جاتے ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ الفاظ ہی اظہار کے معانی کے عکاس ہوتے ہیں۔
انگریزی کا ایک لفظ ہے Initiative جس کا ترجمہ ہماری زبان میں پہل کاری کیا جاتا ہے۔ یہ پہل کاری درحقیقت کسی کام کا سہرا پہلے اپنے ماتھے پر سجانے کو کہا جاتا ہے اس لیے سفارتی اور سیاسی زبان میں آپ کو لفظ Initiative بہت بار سننے اور پڑھنے کو ملے گا۔ یہ ایک طرح سے کسی عمل کو اپنے نام پیٹنٹ کرانے کا نام ہے۔
پاکستان کی فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے ISPR نے ایک بیان جاری کرنے میں پہل کاری کی اور اس میں بہت سوچ بچار کے بعد الفاظ کا استعمال کیا جو کوئی بھی ذمہ دار اور منظم ادارہ کرتا ہے کہ اپنے موقف کو سب کے سامنے پیش کرنے سے پہلے اس کے لیے استعمال کیے جانے والے ہر لفظ کے معانی اور ان معانی سے پیدا ہونے والے نتائج کو کئی بار آنکے۔
بیان جاری ہونے کے بعد سول مدبر لاکھ کہیں کہ اگر فلاں لفظ استعمال نہ کیا جاتا تو دوسرے فریق کو ردعمل کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر فوج نے اپنے تحریری بیانات کے لیے آپ کے مشورے سننے ہوتے تو وہ آپ یا آپ جیسے کسی اور دانشور کو اپنے موقفات کو ورطہ تحریر میں لانے کا کام سونپ دیتی مگر ایسا نہیں ہے۔
دوسری بات کسی اور فریق کا ہونا ہے۔ سب عاقل و فہیم افراد جانتے ہیں کہ کسی بھی مناسب ملک میں اظہار اور عمل کے لیے ایک ہی فریق ہوتا ہے یعنی حکومت۔ باقی سب ادارے اس کے ماتحت ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ایسا بھی نہیں ہے۔
گذشتہ دنوں برطانیہ میں فوج کے ذمہ دار افسر اعلٰی نے مستقبل کے ممکنہ وزیراعظم جیریمی کوربن کے اس بیان پر کہ اگر برطانیہ کو جوہری حملے کا خطرہ بھی ہوا تو بھی وہ جوہری بٹن نہیں دبائیں گے، کسی ٹی وی چینل پر بیٹھ کر اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا تھا جس پر جیریمی کوربن نے، جو ابھی حکومت میں نہیں ہیں اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا اور برطانیہ کی وزارت دفاع سے مطالبہ کیا کہ اس ذمہ دار افسر کے خلاف تادیبی کارروائی کرے۔ اگر ان کو تحفظات ہیں بھی تو انہیں چاہیے کہ مجھ سے آ کر ملیں اور بات کریں۔
اس کے برعکس ہمارے ہاں فوج کوئی بات کہنے کا Initiative لے لیتی ہے اور بعد میں حکومت بیچاری کو کان ہوتے ہیں تو وہ فوج کے ماتھے سے سہرا نوچ کر اپنے ماتھے پر سجانا چاہتی ہے مگر اس زبردستی میں سہرے کے بہت سے پھول جھڑ جاتے ہیں اور سہرا خوشی کی علامت کی بجائے ماتم کا بین لگنے لگتا ہے۔
اگر کوئی یہ سمجھے کہ ISPR کی جانب سے جاری کردہ بیان محض اشک شوئی کی خاطر تھا تو وہ یا تو معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا یا غلط فہمی کا شکار ہے۔ صدر پاکستان ممنون حسین کے یہ کہنے سے کہ مارشل لاء کا کوئی امکان نہیں، لے کر اچکزئی صاحب کے بلند بانگ بیان تک کہ اگر شریفوں کا معاملہ ہوا تو وہ سول شریف کے ساتھ ہونگے، غلط فہمی پر مبنی ہیں۔
فوج طاقت سے وابستہ ایک ادارہ ہے جو "ویک آپ کالز" سے کام لینا جانتا ہے۔ جاگو سونے والو محض جھنجھوڑنے کی خاطر ہوتا ہے۔ البتہ "تیرا لٹیا شہر بھنبھور سسیے بے خبرے" سے پہلے "جاگو سونے والو کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ سسّی بعد میں جاگی بھی تو۔ صحرا میں آبلہ پائی ہی مقدر ہوگا۔ یااللہ سسی کی خیر!