Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mojahid Mirza
  4. Aaiye Oxford Aur Cambridge Chalte Hain (1)

Aaiye Oxford Aur Cambridge Chalte Hain (1)

آئیے آکسفرڈ اور کیمبرج چلتے ہیں (1)

لندن میں قیام کو مختصر کرنا تنگی داماں کے سبب تھا۔ ارادہ تھا کہ دو روز دوسرے شہروں جیسے برمنگھم اور بلیک پول میں دوست اور ہم جماعت کے ساتھ بتا لوں گا۔ منصوبہ دوم تھا کہ آکسفرڈ اور کیمبرج کا "دیدار" سہی۔

گذشتہ برس جب پاکستان گیا تھا تو تمام نمبروں کی ڈائریکٹری پر مشتمل ایک پرانا چھوٹا موبائل فون سیٹ وہیں رہ گیا تھا جو سنا کہ بعد میں کسی سے پانی میں گر گیا اور بالکل خراب ہوگیا یوں برمنگھم والے کا تو شمارہ فون مل ہی نہ سکا البتہ بلیک پول والے ہم جماعت نے اپنا نمبر فیس بک کے توسط سے دے دیا تھا۔

یہ ہم جماعت مصروف سرجن قلندر خان ہیں۔ لندن سے فون کیا تو بولے ہاں یار ویک اینڈ پر آ جاؤ۔ مجھے تو جمعرات کی صبح سویر واپسی کی پرواز لینی تھی۔ لفٹ ہانزا کی یہ پرواز میونخ سےدو گھنٹے بعد بدلنی تھی۔ اس لیے کہا بھائی میں ویسے ہی آ جاتا ہوں تو بولے یار میں صبح 8 سے رات آٹھ بجے تک میسر نہیں ہونگا تو کیا مزہ آئے گا۔ ہاں آنے سے دو ماہ پہلے مطلع کر دیتے تو میں چھٹیاں لے لیتا۔ میں نے اتنا کہا، لعنت ہے ایسی زندگی پر، یہ بھی بھلا کوئی زندگی ہے۔ وہ فوراََ ہی متفق ہوگیا کہ ہاں یار، یہاں کوئی زندگی نہیں ہے۔

اب منصوبہ دوم پر ہی عمل کیا جا سکتا تھا۔ ندیم سعید بھی مصروف تھا البتہ اس نے گوگل سے آکسفرڈ سے متعلق معلومات لے کر مجھے پوسٹ کر دیں۔ یہ بھی بتا دیا کہ کس طرح گھر کے نزدیک سٹیشن ہیکنی سنٹرل سے پیڈنگٹن پہنچوں اور وہاں سے ریل گاڑی پکڑ لوں۔

پیڈنگٹن ریلوے سٹیشن پر چہل پہل تھی۔ مجھے ٹکٹ گھر دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ ایک جوان شخص سے پوچھا تو اس نے اشارہ کرکے بتا دیا کہ وہاں سامنے۔ چند افراد پر مشتمل مہذب طرز کی ایک قطار تھی یعنی چار سیلز ڈیسکس پر سے کوئی خالی ہوتا تو شروع کی لکیر پر کھڑے شخص کو آواز دے کر بلا لیا جاتا اس کے پیچھے والا شخص چند قدم پیچھے موجود دوسری لکیر سے چل کر پہلی لکیر پر جا کھڑا ہوتا۔ جب میں پہلی لکیر پر تھا تو ایک خشخشی داڑھی والے، عینک لگائے انگریز شخص نے ہاتھ اٹھا کے میری جانب دیکھتے ہوئے "نیکسٹ" کہہ کرکے بلا لیا۔ میں نے آکسفرڈ کی ٹکٹ مانگی۔ اس نے پوچھا یک طرفہ یا واپسی سمیت، میں نے کہا ریٹرن۔ اس نے 26 پاؤنڈ 60 پنس مانگے۔ میں نے پچاس کا نوٹ اس کے ہاتھ میں دیا۔ اس نے اگلی ٹرین کا وقت اور پلیٹ فارم بتاتے ہوئے دو ٹکٹ اور بقایا مجھے تھما دیا۔ شکر ہے میں روس سے گیا تھا اگر پاکستان سے گیا ہوتا تو فوراََ 174 سے ضرب دیتا اور لاہور سے گوجرانوالہ تک کے واپسی سفر کا کرایہ 4628 روپے جان کر چکرا کے رہ جاتا۔

سامنے ہی پلیٹ فارم تھے۔ ہوائی جہاز کے منہ متھے والی خوبصورت رنگوں کی ٹرین کھڑی تھی۔ پہلے دو چھکڑوں پر "فرسٹ کلاس" لکھا تھا یعنی اور بھی مہنگے ٹکٹ والی کلاس۔ تیسرے چھکڑے میں داخل ہوگیا۔ ہر دو جانب دو دو نشستیں تھیں۔ میں ان میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ ریل گاڑی اچھی اور صاف ستھری تھی۔ ہمارے روس میں ریلوے سٹیشن سے ہوائی اڈوں تک جانے والی "ایرو ایکسپریس" نام کی گاڑیاں اس سے بھی اچھی اور دو منزلہ ہیں جن کا اتنے ہی سفر کا واپسی کرایہ 1000 روبل ہے یعنی 2000 روپے سے چند روپے زیادہ۔

مسافر کم تھے۔ اس لیے سب علیحدہ علیحدہ نشستوں کی طرف رخ کر رہے تھے۔ پھر ایک شخص نے جو بڑا سا رک سیک اٹھائے ہوئے تھا مجھ سے استفسار کیا آیا آپ کے ساتھ والی نشست خالی ہے۔ میں نے اثبات میں جواب دینے کو نگاہ اٹھا کر دیکھا تو سیاہ و سفید ہلکی داڑھی، عینک کے شیشوں کے پیچھے چمکتی آنکھوں والا بلند قامت اور بھرے جسم والا یورپی مرد تھا۔

جونہی وہ بیٹھا میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔ اس نے بتایا آکسفرڈ اور یہ کہ وہ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے ایک سکول میں جرمن زبان کا استاد ہے۔ میں نے سوچا، اوہ یہ بھی آکسفرڈ دیکھنے جا رہا ہے اور اپنا مقصد بتا دیا۔ اس نے کہا کہ وہ کئی بار جا چکا ہے۔ اسے آکسفرڈ اچھا لگتا ہے۔ میں چمٹ گیا کہ بھائی اگر تکلیف نہ ہو تو میں بھی سیر میں تمہارے ساتھ ہو لوں۔ اس نے کہا کیوں نہیں، ہاں البتہ مجھے دو بجے کے بعد آکسفرڈ سٹیڈیم پہنچنا ہے۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں تم چلے جانا۔ اسی روز آئی ایس پی آر کے جنرل آصف غفور بھی آکسفرڈ میں تقریرکرنے والے تھے، مگر مجھے اس سٹیڈیم سے متعلق معلوم نہیں تھا۔

ہم گپ شپ لگا رہے تھے کہ ایک بوڑھا ٹکٹ چیکر ٹکٹ چیک کرتا آتا دکھائی دیا۔ میں نے ہنس کے کہا کہ ٹکٹ تو مشین سے گزرا ہوا ہے تو اسے چیک کرنے کی ضرورت کیا آن پڑی۔ اتنے میں چھوٹی چھوٹی داڑھی والا یہ نسبتاََ چھوٹا ادھیڑ عمر انگریز ہمارے نزدیک آ گیا۔ پہلے ایلیکس نے اسے اپنا آکسفرڈ تک کا ٹکٹ پکڑاتے ہوئے پوچھا کہ ٹکٹ پر "آف پیک" لکھا ہوا ہے اس کا کیا مطلب ہوا۔ چیکرنے بتایا کہ یا تو آپ چار بجے سہ پہر تک لوٹ آئیں یا پھر چھ بجے کے بعد۔ اس وقت کے دوران رش ہوتا ہے، اس لیے ٹکٹ کی قیمت بھی مختلف ہوتی ہے۔ پھر میں نے اپنا ٹکٹ پکڑایا۔ اس نے واپس کیا تو میں نے ٹکٹ دیکھتے ہوئے ایلیکس سے کہا، شکر ہے اس نے ٹکٹ پنچ نہیں کیا۔ اپنے موبائل فون پر ٹکٹ رکھ کے ٹکٹ پر بال پوائنٹ سے کاٹے ماٹے مار دیے تھے، شاید اس کے دستخط تھے۔ ایلیکس بھی مسکرا دیا۔ ہم دونوں متفق وئے کہ چیکر برطانوی روایات کی باقیات کے طور پر برقرار تھا۔

ایلیکس نام کا یہ استاد خوش مزاج تھا۔ 52 برس کی عمر میں بھی کنوارا اسی لیے اپنی عمر سے کم کا لگ رہا تھا۔ کہنے لگا شادی کرنے کا جھنجھٹ کون پالے، دوستیاں لگانے پر ہی اکتفا کرنا چاہیے۔ اسے کیا بتاتا کہ ہم مسلمان تو نکاح نہ کریں تو گناہگار اور کر لیں تو سزاوار ہونے کے انتہائی شوقین ہیں۔

ایلیکس نے بتا دیا تھا کہ ہمیں نکلتے ہی شہر کے لیے بس پکڑنی ہے چنانچہ نکلتے ہی ہم دونوں نے دو دو پونڈ کا واپسی سمیت بس کا ٹکٹ خریدا اور بس چلنے کے تھوڑی ہی دیر بعد ہم شہر کے مرکز میں پہنچ گئے۔ بارش ہو رہی تھی۔ میں نے ندیم کی دی ہوئی رنگین زنانہ چھتری کھول لی۔ ایلیکس نے تو چھجے والی ٹوپی پہنی ہی ہوئی تھی۔

تھوڑی دور چلنے کے بعد اس نے ایک چوکور ستون کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ شہر کا ٹاور ہے۔ یہ بہت زیادہ اونچا نہیں تھا۔ اوپر والے حصے میں گھڑیال تھا اور نیچے دفتر کھلا ہوا تھا جہاں سے ٹکٹ لے کر اوپر چڑھا جا سکتا تھا اور بقول ایلیکس کے سارا شہر دیکھا جا سکتا تھا۔ ریل میں اس نے پوچھا بھی تھا کہ کیا تم مینارے پر چڑھو گے مگر وہاں تصویریں لیتے، چھتری سنبھالتے میں اس بارے میں بھول گیا تھا۔

ایلیکس نے کتابوں کی دکانوں میں جانا تھا۔ پہلے وہ ایک دکان میں داخل ہوا۔ اس نے کسی کتاب کے بارے میں معلوم کیا تو چینی شکل والی خاتون نے کمپیوٹر پر دیکھ کر نفی میں جواب دیا تھا۔ میں نے سوچا میں بھی اس کتاب سے متعلق معلوم کر لوں جو خریدنے سے متعلق ایک دوست نے واٹس ایپ پر پیغام بھیجا تھا۔ خیر سے وہ کتاب بھی نہیں تھی۔

پھر سڑک پر نکل لیے۔ ہجوم بہت زیادہ تھا۔ میں نے پوچھا اتنے زیادہ لوگ کیوں ہیں تو ایلیکس نے بتایا کہ یا تو سیاح ہیں ہماری طرح یا طالبعلم۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں کثیر تعداد میں تھے اس لیے میں نے پوچھا کہ یہ طالبعلم پڑھنے کی بجائے گھوم پھر کیوں رہے ہیں۔ ایلیکس مسکرا دیا۔

وہ مجھے بتا ہی چکا تھا کہ اس شہر میں اڑتیس کالج ہیں جن میں سے بیشتر وہ دیکھ چکا ہے۔ ہر کالج میں داخلے کی خاطر ٹکٹ لینا پڑتا ہے۔ جس کالج میں داخل ہوکر اس نے ٹکٹ گھر کی کھڑکی پر کہا "ون ایڈلٹ" تو مجھے ہنسی آ گئی تھی پھر میں نے پیسے پکڑاتے ہوئے کہا تھا "ون فار اوور ایڈلٹ"۔ ٹکٹ دینے والا ہنسے بنا نہ رہ سکا تھا۔ بوندا باندی ہو رہی تھی۔ ایلیکس نے داخل ہوتے ہی ایک جگہ اپنی تصویر بنانے کو کہا۔ تصویریں بنا، ہم مزید اندر گئے۔ ایک باغیچہ عبور کیا۔ وکٹورین سٹائل عمارت کی سیڑھیاں چڑھنے لگے تو لکھا ہوا تھا کہ تماشبینوں کے لیے بند ہے۔ دو مرد آئے اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دروازہ کھول کر داخل ہو گئے۔ میں نے ایلیکس سے کہا وہ تو گئے ہیں۔ کہنے لگا وہ طالبعلم ہونگے۔ اڑتیس چالیس برس کے طالبعلم؟ ہو بھی سکتے ہیں۔ مجھے تین پاؤنڈ دینے کا افسوس تھا۔ خیر واپسی دروازے پر پہنچے تو دو لڑکیاں کالج کے اندر کھڑی گپ لگا رہی تھیں۔ میں نے کہا بھئی ایلیکس کے ساتھ میری تصویر بنا دو۔ ان میں سے ایک بخوشی راضی ہوگئی۔ چھتری رکھنے کو ادھر ادھر دیکھا تو دوسری نے میری چھتری تھامنے کا فریضہ ادا کر دیا۔

جہاں تعلیم ہو وہاں لوگ خلیق ہو جاتے ہیں، اچھی روایات بھی ان کے رویوں کو سدھارتی ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بیلیول کالج تھا جو فرانس سے منتقل ہوئے لارڈ بیلیول نے بنوانا شروع کیا تھا۔ یہاں سے معروف شخصیت ایڈم سمتھ نے پڑھا تھا جس نے سرمایہ دارانہ معیشت کے خدوخال وضع کیے تھے۔ یہ صرف مردوں کے لیے کالج تھا جہاں پہلی لڑکی 1979 میں داخل کی گئی تھی اور آکسفرڈ کا پہلا کالج ہے جہاں برطانیہ کی وزارت خارجہ کی ایک سیکرٹری ڈیم ہیلن گھوش کو 2017 میں اس کالج کا ماسٹر (پرنسپل) منتخب کیا گیا ہے۔

وہاں سے نکل کر میں نے ایلیکس سے پوچھا کہ تم اس کالج کو ہی دیکھنے کیوں گئے تو اس نے جواب میں کہا اس لیے کہ میں نے باقی دیکھے ہوئے ہیں۔ وہ مجھے گھماتا رہا اور معروف جگہیں جیسے دو عمارتوں کے درمیان ایک پل۔ بادلین لائیبریری، گرجا گھر باہر سے دکھاتا رہا۔ ہر طرف سائکلیں ہی سائکلیں تھیں کیونکہ طالبعلم سائکلیں استعمال کرتے ہیں۔

وہ ایک بار پھر بلیک ویل نام کی کتابوں کی ایک دکان میں داخل ہوگیا۔ وہاں سے اسے کچھ چیزیں پسند آ گئیں۔ وہ خریدنے لگا تو میں نے مطلوبہ کتاب کا معلوم کیا۔ کتاب کا نام تھا "آفٹر دی پرافیٹ"، ریسیپشن پر موجود شخص نے کمپیوٹر پر دیکھ کر پوچھا کہ شیعہ سنی معاملے سے متعلق ہے کیا کتاب؟ میں نے کہا مجھے معلوم نہیں البتہ اگر مصنفہ وہی ہے جو میں نے بتائی تو کتاب کی قیمت بتا دیں۔ بولا بارہ پاؤنڈ اور بتایا کہ نیچے دوسری منزل میں فلاں ریک میں ہے۔ آپ خود چلے جائیں گے کہ میں ساتھ چلوں۔ کہا بھائی ساتھ ہی چلو۔ فارغ ہو چکے ایلیکس کو کہا "منتظر باش"۔

جاری۔۔

Check Also

Teenage, Bachiyan Aur Parhayi

By Khansa Saeed