Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohammad Asif Usman
  4. Hum Falasteen Ke Liye Kya Kar Sakte Hain?

Hum Falasteen Ke Liye Kya Kar Sakte Hain?

ہم فلسطین کے لیےکیا کرسکتے ہیں؟

یہودی تاریخی اور مذہبی پس منظر میں فلسطین کو اپنی ارض موعود قرار دیتے ہیں، اور ان علاقوں پر اپنے قبضے اور آبادکاری کو اسی بنیاد پر اپنا حق سمجھتے ہیں، یہود کا یہ نظریہ اور دعویٰ تاریخی مطالعہ کی روشنی میں انصاف اور قانونی تقاضوں پر پورا نہیں اترتا، کیونکہ تاریخی لحاظ سے فلسطین کے تمام شہروں کی بنیاد بنی اسرائیل یا یہودیوں نے نہیں بلکہ کنعانیوں نے رکھی تھی، القدس کا شہر بھی کنعانی قبیلے کی اہم شاخ "ببوس"نےآباد کیا تھا، فلسطین کا نام بھی ایک قبیلے"بلست"کےنام پر مشہور ہوا اور یہ قبیلہ بھی یہودی نہیں تھا۔

حضرت ابراہیمؑ نےکنعان ہجرت کی تو اس طرح عبرانیوں (بنی اسرائیلیوں) کی یہاں آمد ضرور ہوئی، پھر حضرت یوسفؑ کے مصر منتقل ہونے سے بنی اسرائیل بھی مصر میں حکمران بن گئے اور بعد میں قبطیوں کے غلبہ کی وجہ سے وہ مصر سے نکلے تو فلسطینی علاقوں میں آکر آباد ہوگئے اور یہاں حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ کے زمانہ میں بنی اسرائیل کی حکومت بھی رہی، سلیمانؑ کے بیٹے رجعام بھی حکمران رہے، درمیان میں 160 قبل مسیح سے صرف ایک سوسال تک مکابی خاندان نےبھی حکومت کی تھی، مگر588 قبل مسیح میں بخت نصر کے اس علاقہ پر قبضہ کے بعد سے لیکر بیسویں صدی تک کبھی بھی (باستثنائے صدسالہ مکابی عہد) فلسطینی علاقوں پر یہودی حکوت قائم نہیں ہوئی۔

اس پورے عرصہ میں یہ علاقہ اہلِ فارس اور پھر یونانیوں کے قبضہ میں رہا، اس کے بعد رومیوں یعنی عیسائیوں کے قبضہ میں چلاگیا، تاوقتیکہ حضرت عمر نے 16ھ میں اسےعیسائیوں ہی سےفتح کیا تھا اور پہلی صلیبی جنگ کے نتیجہ میں بیت المقدس نوے سال کے لیے دوبارہ عیسائیوں کے قبضہ میں چلا گیا پھر1187ء میں صلاح الدین ایوبی نے اسے دوبارہ فتح کرلیا۔ تودوستو! ایک ایسی قوم جس کا فلسطینی علاقوں میں کل عرصہ حکومت ڈیڑھ سوسال کا ہو، وہ بھی آج سےتقریبا تین ہزار سال پہلے تو اس قوم کا تین ہزار سال پہلے مختصر عرصہ حکومت کو ان علاقوں پر دوبارہ اپنے قبضہ کے جواز کی دلیل بنانا کیسے مستند ہوسکتا ہے؟

فلسطین 16 سے18 کلومیٹر ایک طویل ساحل ہے جوکہ ناقورہ سے رفح تک پھیلا ہوا ہے۔ کل رقبہ تقریبا 27 ہزار کلومیٹر ہے، طولکرم، خان یونس، رملہ، عکاء، یفاء، یافا اورغزہ اس کے مشہور شہر ہیں۔ پہاڑی سلسلوں میں سب سےاونچا پہاڑی سلسلہ جبل طور ہے جس پر بیت المقدس واقع ہے اور اسلام کی تیسری مقدس ترین جگہ مسجد اقصی اور گنبدِ صخرہ بھی اسی شہر کی زیب وزینت ہیں۔

فلسطینی علاقہ غزہ اس وقت تباہی کا مرکز بنا ہوا ہے، سات اکتوبر کے بعد سے لیکر اب تک جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجہ میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد گیارہ ہزار سے تجاوز کرچکی ہے، جس میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، یہ وہ تعداد ہےجن کی میتییں باقاعدہ گنتی کے عمل سےگزری ہیں، ایسےلوگ جن کی میتیں ملبوں تلے دبی ہوئی ہیں، ان کو شامل کرلیا جائے توشہداء کی یہ تعداد بیس ہزار سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ زخمی اور بےگھر ہونے کی شرح تولاکھوں میں ہے۔

سات اکتوبر سے لیکر آج کے دن تک پوری دنیا میں درد دل رکھنے والے تمام مسلمان کرب والم سےگزر رہے ہیں، وہ روزانہ اپنے موبائل پر اپڈیٹس دیکھتے ہیں، جنگ بندی کے لفظ والی ہر ویڈیو، پوسٹ اور تجزیہ کو سنتے ہیں، پھر حوصلہ افزا خبر نہ سن کرسوچنے لگ جاتے ہیں کہ اہل فلسطین کی سپورٹ میں ہماری طرف سےکیا ممکنہ اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں؟

ہنگامی اور جنگی حالات میں عوامی رائے عامہ اور پالیسی ساز ادارے دوایسے فیکٹرز ہوتےہیں، جوکہ مستقبل کارخ متعین کرتےہیں۔ پبلک رائے عامہ بذات خود فیصلہ کن نہیں ہوتی مگر یہ فیصلہ سازی کے عمل پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ عام شہری ہونے کی حیثیت سے ہماری جدوجہد پبلک رائے عامہ کوبلا واسطہ اور پالیسی ساز اداروں کی حکمت عملی کو بالواسطہ تبدیل کرنے میں اہم ہوتی ہے۔

پبلک رائے عامہ کو اہل فلسطین کے حق میں ہموار کرنے کے لیے ہر شہری اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتا ہے، الیٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا استعمال، فیس بک، واٹس ایپ، ٹویٹر، انسٹاگرام، ٹک ٹاک، ٹاک شوز سمیت تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، پینافلیکسز، سائن بورڈز کا اہتمام، پارکس، مساجد، سکولز، کالج جیسے سوشل ادارے، ذمہ دار اور پرامن قیادت کی طرف سے شیڈول احتجاجی مظاہرے، یہ تمام ایسی سرگرمیاں ہیں جن کے ذریعے عام شہری عوامی رائے عامہ کو اہل فلسطین کے حق میں کرنےمیں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ گلوبلائزیشن کی وجہ سے مسلم ممالک میں پائے جانے والی یہ سرگرمیاں غیرمسلم ممالک کی پبلک رائےعامہ بالخصوص وہاں کی مسلم کمیونٹیز کی رائےعامہ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اسی پبلک رائےعامہ کے نتیجہ میں پالیسی ساز اداروں پر دباؤ پیدا ہوتا ہے۔

الحمدللہ دنیا بھرکے امن پسند اور انصاف پسند شہری ان سوشل سرگرمیوں کو مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں، مسلم ممالک کے علاوہ بھی بھرپور مظاہرے ہو رہے ہیں، لندن میں لاکھوں لوگ سیزفائر کی حمایت میں جمع ہوئے، واشنگٹن میں بھی ملتی جلتی صورتحال رہی، اس عوامی سرگرمیوں سےگوکہ ابھی تک اسرائیل کے حامی ممالک کی حکومتی پالیسی میں توتبدیلی نہیں آسکی مگر اس کےنتیجہ میں ایسے ممالک میں پبلک رائےعامہ مکمل طور پر سیزفائر کے حق میں تبدیل ہوچکی ہے، جس سے پالیسی ساز اداروں پر دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں ایک مظاہرے کے شرکاء کے مطالبات میں"سیزفائر کرو، ووٹ لےجاؤ" کانعرہ بھی شامل تھا۔

دنیا بھر بالخصوص امریکہ و برطانیہ میں ان سوشل سرگرمیوں کے رائےعامہ پر اثر انداز ہونے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہےکہ ویٹو پاور کے حامل ان طاقتور ملکوں میں موجود مسلم کیمیونٹیز کو باقاعدہ طور پر منظم کرنے سے اور بھی زیادہ حوصلہ افزا ثمرات حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ امریکہ میں یہودی دوسرا اور مسلمان تیسرا بڑا مذہب ہیں جبکہ برطانیہ میں اسلام دوسرے نمبر پر اور یہودی تیسرے نمبر پر ہیں، برطانیہ میں وہ صیہونی یہودی کمیونٹی ہی تھی جس نےحکومت برطانیہ سے اپنا ملک منظور کروایا اور امریکی پالیسی سازی کے عمل کا بھی ایک مضبوط حصہ بنی ہوئی ہے، مسلم کیمیونٹیز بھی اگر منظم منصوبہ بندی کرلیں تو یقینا وہ بھی ان ممالک میں اپنا پر اثر و رسوخ بڑھا سکتی ہے۔

2020ء کےانتخابات میں بھی کئی امریکی ریاستوں میں صدر جوبائیڈن کی جیت میں مسلم ووٹ بنک نے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا، ایریزونا، وسکانس، مشی گن اور پنسلونیا ایسی ریاستیں تھیں جہاں مسلمانوں کی آبادی صدر جوبائیڈن کی جیت کے مارجن سےکہیں زیادہ ہے۔ یوں ایک منظم انداز میں اگر ٹارگٹ سیٹ کیےجائیں، بالخصوص وہاں کی معیشت اور میڈیا میں یہودیوں کی طرح اپنا حصہ بڑھایا جائے، توطاقت کے وہ مراکز جن کی مرضی کے بغیر اسرائیل ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتا، توان ممالک کی پالیسیوں کو اندر سے بیلنس کرنےکی امید لگائی جاسکتی ہے۔

اب تک کی سامنے آنے والی صورتحال کے مطابق اگرچہ اسرائیل کےحامی ممالک نےاپنی پالیسی تو تبدیل نہیں کی، لیکن یہ بات واضح ہےکہ پبلک رائےعامہ سیزفائر کے حق میں ہونےکہ وجہ سےحکومتی ادارے دباؤ ضرور محسوس کر رہے ہیں، بظاہر ایسے لگتا ہےکہ یہ ممالک اپنےاہداف کوزیادہ سے زیادہ ٹارگٹ کرنےکی غرض سے ابھی اسرائیل کو وقت دے رہے ہیں۔ تاہم عوامی دباؤ اور پبلک رائےعامہ کی وجہ سے بالآخر یہ ممالک اقوام متحدہ کے ذریعے سیزفائر کی حمایت کردیں گے۔

مختصر یہ کہ ہم اہل فلسطین کے لیے دستیاب تمام سوشل پلیٹ فارمزکے استعمال سے پبلک رائےعامہ کو ہموار کرسکتے ہیں، احتجاج کی مختلف شکلوں کے ذریعے اپنے اپنے ممالک کے پالیسی سازوں کو اپنا پیغام دے سکتے ہیں، پبلک رائےعامہ کےذریعہ حکومتی اداروں کی فیصلہ سازی کےعمل پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، مسلم امہ کے عالمی لیڈروں اور اداروں کوطاقتور ممالک میں مسلم کیمونٹیز کو منظم کرنےکا میسیج دے سکتے ہیں، امانتدار اور قابل اعتماد اداروں کے ذریعے اہل غزہ کی امداد و بحالی میں حصہ لے سکتے ہیں، اسرائیلی مصنوعات کی بائیکاٹ مہم کا حصہ بن سکتےہیں۔ نئی نسل کو مسئلہ فلسطین کی اہمیت سےآگاہی دے سکتے ہیں۔ یوں ہم پبلک رائے عامہ کو تبدیل اور حکومتی پالیسی سازوں کو متوجہ کرکے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

Check Also

Bohat Deir Ka Di Meharban Aate Aate

By Dr. Ijaz Ahmad