Jama o Zarb Aur Nafi o Taqseem
جمع و ضرب اور نفی و تقسیم
جمع و ضرب کا بنیادی فرق یہی ہے کہ جمع کے عمل کے دوران ہر مرحلہ، مرحلہ وار سر انجام دیا جاتا ہے جیسا کہ اگر ایک عمارت بنائی جانی ہو تو سب سے پہلے اُس عمارت کے لئے ایک پلاٹ کا انتظام کیا جاتا ہے۔ پھر اینٹ، سیمنٹ، بجری کے ساتھ ساتھ مستری و مزدور کا انتظام بھی کیا جاتا ہے جو سب مل کر ایک ایک اینٹ لگانے یعنی ترتیب وار مطلوبہ مراحل طے کرنے یعنی جمع کرنے کے اصول کے پیش نظر عمارت کو مکمل کرتے ہیں۔ یہ سب مراحل جمع کے قواعد وضوابط کے مطابق ہی اپنے اختتام کو پہنچتے ہیں۔
ایسا ہونا ممکن ہی نہیں کہ یہ مذکورہ عناصر کو ایک جگہ پر اکٹھا کر دیا جائے تو کسی جادو یا منتر سے ایک دوسرے سے ضرب کھا کر پلک جھپکتے ہی عمارت کی شکل اختیار کر جائیں اور اِسی طرح ضرب کا عمل کسی بھی فرد کو حتمی نتیجہ تک پہنچنے کے لئے ایک ہی بار کے عمل سے گزارتا ہے اور آخری نتیجہ حاصل کر لیا جاتا ہے جیسا کہ جتنی بھی بڑی تعداد میں رقم موجود ہو اُسے کسی بھی عدد سے ضرب دے کر حتمی اور یقینی مقدار معلوم کی جا سکتی ہے۔ ہر ہر مرحلے کو بار بار دوہرانے کی مشقت سے نہیں گزرنا پڑتا۔ یہ دونوں اعمال اپنی اپنی نوعیت کے لحاظ سے منفرد اہمیت کے حامل ہیں اور اِ ن کا وجود، بہت ساری محنت و مشقت سے انسان کو محفوظ رکھنے میں ممدو معاون ثابت ہوتا ہے۔
اِسی طرح نفی و تقسیم کا بنیادی فرق بھی کچھ ایسا ہی ہےکہ علمِ نفی کے دوران ہر مرحلے کو پیشِ نظر رکھنا پڑتا ہے جیسا کہ جمع کے عمل میں ہوا جبکہ تقسیم کے عمل میں ایک ہی بار حتمی نتیجہ سامنےآجاتا ہے جیسا کہ اگر 10 روپے 10 بچوں میں تقسیم کرنے ہوں تو تقسیم کے عمل کا اطلاق کرنے سے واضح ہو جائے گا کہ ہر بچے کے حصے میں ایک ایک روپیہ آئے گا اور اِسی طرز پر جتنی بھی بڑے رقم جتنے بھی افراد کے درمیان میں باٹنی ہو ایک ہی عمل کو اپنانے سے آسانی سے ممکنہ نتائج تک پہنچا جا سکتا ہے۔
بعینہ انسان کی زندگی کا بھی تجزیہ کیا جائے تو اس میں بھی جمع و نفی کا عمل بروئے کار ہوتا دیکھائی دیتا ہے۔ اِس کی زندگی کے معاملات جمع و نفی کے حساب سے چل رہے ہوتے ہیں لیکن یہ خود ضرب و تقسیم کے عمل سے ایک ہی بار آخری نتیجہ تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اُس کی زندگی ہر روز ایک دن جمع ہوتا ہے اور ایک دن نفی لیکن ایسا ممکن ہی نہیں کہ وہ کسی طرح تمام ایّام جمع کر لے اور تمام راتیں نفی کردے تاکہ وہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں ضرب دینے والا عمل کر سکے۔
خوشی اور غمی بھی اُسی طرز پر جمع و نفی ہوتی ہے۔ یکبار خوشی کو ضرب نہیں دی جا سکتی اور پلک جھپکنے میں تمام غموں کو نہ تو نفی کیا جا سکتا ہےاور نہ ہی تقسیم۔ یہ تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب فرد دیگر انسانوں سے انُسیت کے رشتے میں منسلک ہو، دیگر افراد معاشرہ سے میل و ملاپ رکھتا ہو، اُن سے ہمدردانہ اور اچھے اخلاق سے پیش آتا ہو، اپنی ذمہ داریوں کا احسن انداز میں ادا کرتا ہو۔ تب وہ حقیقت میں ایک ایک کرکے خوشی کو جمع کرے گا لیکن دیگر حلقہ احباب سے مل کر، انہیں اپنے مسرت کے لمحات میں شامل کرکے ضرب کے عمل سے مستفید ہو سکے گا اور بعینہ غم بھی ایک ایک کرکے اُس کی زندگی میں آئیں گے لیکن محبت و اخوت کے بندھے مضبوط بندھن کے سبب تقسیم ہوتے چلے جائیں گے اور متاثرہ فرد خود ہلکا محسوس کریگا۔
یہ عمل اسقدر کارگر ہے کہ خوشی سے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر دیا جائے جس سے وہ مسکرا اُٹھے تو ہاتھ رکھنے والے کی خوشی ضرب کھا کر کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور اِس کے برعکس کسی بے قصور سے بُرے اخلاق سے پیش آیا جائے جس وہ رنجیدہ ہو جائے تو اُس کا غم تقسیم ہو کر آپ کے غم سے ضرب کھا جائے گا۔ لہذا دیگر انسانوں سے مودت کا بندھن بنائے اور جمع کے عمل کو ضرب میں تبدیل کر لیجئے اور نفی طرز عمل کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو تقسیم کا عمل بھی فائدہ سے خالی نہ رہے گا۔

