Sakit Taharuk Mein Khilqat e Insan
ساکت تحرک میں خلقتِ انسان

لفظ "خلقت" عربی کے لفظ "خلق" سے مشتق ہے جس کے معنی "تخلیق کرنا" یا "بنانا" کے ہیں۔ یعنی یہ وہ عمل یا میکانزم ہے جس سے ارض و سماوات اور ما فی ھا خلق ہوتے ہیں اور اِس عمل کا ماحاصل /product مخلوق کہلائے گی۔
ایک بات طے ہے کہ اِس رؤ زمین پہ جس جس نے بھی جو جو بھی لکھا یا کہا ہے وہ یا تو کہیں سے سن سنا کہ لکھا کہا ہے یا تجربات (جس کے لیے سازگار ماحول دستیاب رہا ہے) کے نتیجے میں لکھا کہا ہے۔ حتی کہ فلسفیوں نے بھی جو جو کہا پہلے سے موجود شواہد کی جانچ پڑتال سے کہا ہے نزول کا معاملہ زیادہ تر فلسفیوں کی حمایت نہیں رکھتا۔ اِن فلسفیوں کے نظریات بھی مظاہرِ فطرت سے صادر ہیں۔
ایمپیڈوکلیز کا نظریہ جو اخلاطِ اربعہ سے متعلق ہے (ہوا، پانی، آگ، مٹی) کسی خواب میں ایمپیڈوکلیز کو نہیں آیا بلکہ حیاتیاتی عوامل کے بغور مشاہدے کا ماخذ تھا۔ افلاطون کا نظریہ عالمِ امثال/Theory of Forms بھی سماج میں بکھرے ہوئے اجزاء (خوبصورتی، انصاف، نیکی) کا ملاپ ہے۔ ارسطو کا مادے اور شکل/Theory of matter and form کا نظریہ اردگرد کے پودوں، جانوروں، آلات اور دیگر اشیاء سے اخذ شدہ ہے۔ ہیراقلاطیس کا نظریہ تغیر/Theory of Flux گزرتے وقت کے لمحوں، بہتے دریاوں کی روانی اور سمندروں کی موجوں سے اٹھا ہے۔
کانٹ کا حکمِ مطلق/Theory of categorical imperative بھی آسمانی نہیں بلکہ سماج میں موجود اخلاقی اقدار کی بنیادوں سے استوار شدہ ہے۔ مارکس بھی پرومیتھیس سے متاثر، سماج میں موجود ناہمواری سے فلسفہ اشتراکیت/Communism دیتا ہے، روسو کا فطری نیکی/Theory of natural state بھی قدیم امریکیوں کی سادہ بوش و باش میں پروان چڑھا۔ فرائیڈ کا نظریہ بھی میتھالوجی (ایڈیپس ریکس) سے متاثر ملتا ہے۔ فریڈریک نطشے دیونیسوس/Dionysus سے متاثر ہو کے مغربی اخلاقیات اور عقلیت پہ تنقید کرتا ہے اور آقا و غلام (Master or slave morality)کی اخلاقیات کے بخیے ادھیڑ کے زمانے کے سامنے رکھتا ہے۔ تو پتہ چلا کہ تخلیقات پہلے سے موجود عوامل کے ملاپ اور ردوبدل سے ہوتی ہیں۔
انسان کی تخلیق کا جہاں تک تعلق ہے تو یونانی فلسفیانہ روایت میں انسان کی خلقت کے عمل کے چیدہ چیدہ اجزائے خلقت میں ہوا، پانی، مٹی، آگ، روح اور نفس/نفسِ ناطقہ شامل ہیں۔ اگر ان اجزائے خلقت کو علیحدگی کے عمل سے گزارا جائے تو اول الذکر چار عناصر مادہ کی اشکال ہیں جبکہ آخر الذکر دو کا تعلق مابعد الطبیعیات سے ہے۔ یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ پہلے چار عناصر کا تعلق مقدار یا تناسب (Quantity) سے ہے جبکہ آخری دو کا تعلق ماہیت (Quality) یا افضلیت سے ہے۔
مندرجہ ذیل مثال صرف تمثیل کے طور پر پیش کر رہی ہوں نہ کہ شخصیت یا شعور کے حیاتیاتی خاکے کے طور پر۔
پانی کا فارمولا H2O ہے۔ یعنی 2 ایٹم ہائیڈروجن کے اور 1 اکسیجن کا، ہائیڈروجن اور اکسیجن کا محض یہ خاص تناسب ہی پانی بنائے گا یا خلق کرے گا۔ لیکن اگر 2 ایٹم اکیسیجن کے اور 1 ہائیڈروجن کا ملایا جائے گا تو HO2 (ہائیڈروجن پر آکسائیڈ) تو بنے گا لیکن پانی نہیں بن سکتا۔ انسان کے اجزائے ترکیبی کے تناسب کا اندازہ ان اجزائے کی مقدار یا ماہیت سے لگایا جا سکتا ہے۔ اگر انسان کی تخلیق کے کُل اجزاء ہوا، پانی، آگ، مٹی، روح اور نفس/ نفسِ ناطقہ کو سمجھ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے چار اجزاء مادہ سے تعلق رکھتے ہیں اور زیادہ ہیں جبکہ روح اور نفس مابعدالطبیعیات سے ہیں اور کم کم محسوس ہوتے ہیں۔
فلسفہ بار بار یہ ظاہر کرتا ہے کہ دوئی (سیاہ اور سفید میں) سچائی، اخلاقیات اور وجود کی پیچیدگی کو بہت زیادہ سادہ بنا دیتی ہے۔ جتنا گہرائی سے ہم خیالات کو تلاشتے ہیں، دنیا اتنی ہی زیادہ "گرے" ہوتی جاتی ہے۔ جو باریکیوں، کشمکش اور سیاق و سباق سے بھرپور ہے۔ یونانی فلسفی ہیراقلاطیس کی ایک اصطلاح Hodos Ano" kato" یعنی "اوپر جانے کا راستہ اور نیچے آنے کا رستہ ایک ہی ہے"۔ یہ سمتوں کی دوئی اور دو متضاد اشیاء کے درمیان کا باہمی ربط ہے۔ یعنی چیزیں گرے ایریا میں ہیں۔ میں نے گزشتہ سال بھر میں بیشتر پاکستانی دانشوروں اور صاحبانِ علم سے بھی یہی جانا ہے کہ اشیاء گرے ایریا میں پائی جاتی ہیں یہاں سیاہ و سفید کچھ نہیں۔ انسان کی خلقت کے اجزاء بھی کہیں نا کہیں اس خیال سے میل کھاتے ہیں۔ عین ممکن ہے انسان خلقتی طور پر گرے ہو کیونکہ اجزاء کی ترکیب میں شے(ہوا، پانی، اگ، مٹی) اور لاشے (روح، نفس) دونوں موجود ہیں۔
تو اگر انسان اپنی خلقت میں اِن اجزاء کے ملاپ سے بنا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ ہر شخص میں اِس کے اجزاء کی ترکیب میں تناسب کا فرق موجود ہو اور یہی فرق اسے انفرادیت بخشتا ہے۔
درج ذیل مثال محض معاون کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہ بلکل ایسے ہے جیسے انسانی جسم میں ٹرانسکرپشن اور ٹرانسلیشن کے نتیجے میں پروٹین بنتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک پروٹین ہے
1: A---B---C---D---E---F---G---H---I
اور یہ پروٹین آنکھوں کو سیاہ یا نیلا یا بھورا رنگ دینے کا موجب ہے۔ اب اگر اس پروٹین میں محض ایک امائنو ایسڈ کی پوزیشن بدلی دی جائے (یاد رہے کہ نا تو کوئی نیا امائنو ایسڈ داخل ہوا ہے نا ختم ہوا ہے محض جگہ تبدیل ہوئی ہے) تو نتیجتاً بننے والی پروٹین کچھ ایسی ہوگئی۔
2: A---B---D---E---F---C---G---H---I
اب اس پروٹین کی ہیت بلکل مختلف ہے اور یہ یکسر مختلف ردِعمل کا موجب ہوگی مثلاً یہ پروٹین بالوں کو رنگ دینے کا موجب ہوگی۔ لیکن مجموعی طور پر پہلی اور دوسری کو پروٹین ہی کہا جائے گا۔ یہ محض تمثیل کے طور پر مستعمل ہے ورنہ پروٹین کا مادے اور انسان کے غیر مادی اجزاء میں فرق واضح ہے۔
بلکل اسی طرح اجزائے انسانی تمام انسانوں میں ایک سے ہیں لیکن عین ممکن ہے کہ ان کی ترکیب کا تناسب ہر فرد میں مخلتف ہو۔ یہ فرق شاید کسی میں آگ کا عنصر زیادہ متحرک بناتا ہو، کسی میں مٹی کا سکون غالب ہو، یا کسی میں روح کا عکس نمایاں ہو۔ چنانچہ، فرد کی شخصیت، مزاج، رجحان اور حتیٰ کہ اُس کا اخلاقی و شعوری رخ سب کچھ اسی انفرادی ترکیب سے نمودار ہو سکتا ہے۔
Individual 1: 18% air، 19% soil، 19%fire، 25water and 19%soul.
جبکہ کسی دوسرے فرد میں یہ ترکیب کچھ ایسی بھی ہو سکتی ہے۔
Individual 2: 21%air، 21% soil، 21% fire، 22% water and 15% soul.
اِن دو افراد کے اجزائے ترکیبی میں ہلکے سے فرق سے اِن کی خلقت یکسر بدل گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام انسان بنی نوع انسان (Homo sapiens) سے ہیں لیکن یہ باریکیاں اور ان میں فرق بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے۔ لہذا اب تک سمجھ یہ پائے ہیں کہ ہر انسان کی خلقت مختلف ہے اسے علم الحیاتیات میں جینیات کا مختلف ہونا بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ خلقتی یا جینیاتی فرق انسانی نفسیات اور رویوں میں تنوع کا باعث بنتے ہیں۔ مجھے یہاں ہیگل کا جدلیاتی مثالیت کا نظریہ (جو تھیسسز، اینٹی تھیسسز اور سنتھسسز کے ذریعے جدلیاتی بنیادوں پہ استوار ہے) کہتا ہے کہ انسان کا شعوری و غیر شعوری ارادی و غیر ارادی سفر اسے بالآخر اُس کی "اصل" (خلقت) پہ لاکھڑا کرتا ہے۔
چند روز قبل ایک فلوشیٹ ڈایاگرام کے زریعے انسانی شعور کے مراحل کو بیان کیا تھا۔ جس کی بنیاد ایک مفروضے/ hypothesis پہ رکھی کہ
"Man is incomplete or restless by birth"۔
انسان خلقتی طور پر نامکمل اور مضطرب مخلوق/ product ہے۔ یہ ناقص مکملیت (Incompleteness) اُسے اضطراب میں دھکیلتی ہے۔ پھر دفعتاً انسان اضطراب سے چھٹکارے اور کاملیت کی تلاش میں تجسس کے مرحلے میں داخل ہوتا ہے اور تجسس اسے سوال کے دہانے پہ لے آتا ہے جہاں سے وہ ایک نئی دنیا سے روشناس ہوتا ہے اور سوال در سوال دوشِ سوال پہ سوار تنقید کی سلطنت میں قدم رکھتا ہے۔ یہاں اس کی سوچ کو نئی جہت ملتی ہے، تجربہ، مشاہدہ، تشکیک، تجسس سب مل کر سوچ کو تنقیدی سمت میں ڈالتے ہیں جس پہ چلتے ہوئے انسان شعور کے گنج ھائے گراں مایہ سے مالامال ہوتا ہے اور بالآخر شعور ارتقا کے اشپراک پہ سوار اسے کسی نا کسی نتیجے/مفروضے (Discourse) پہ لے آتا ہے۔ یہ ڈسکورس انسان کو کاملیت بخشتا ہے (جس کی جستجو کہیں نا کہیں اسے روز اول سے تھی)۔ لیکن ہیگل کے جدلیاتی مثالیت کے مطابق تضادات کی نمویابی اس کاملیت کو پھر سے ناقص مکملیت میں بدل دیتی ہے اور یوں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
Sense of completion
Discourse
Conscious
Critical Thinking
Questioning
Curiosity
Restlessness
Incompleteness
(Man is incomplete and restless by birth)۔
مجھے یہاں فریڈریک نطشے کے Three Metamorphosis یاد آ رہے ہیں اونٹ، شیر اور بچہ۔ تو ڈسکورس کی تشکیل کا سفر یا اسے بنا لینا نطشے کے "بچے" کے استعارے سے مشابہ ہے۔
تو ہم بات کر رہے تھے ہیگل کے وجودیت کے نظریے پہ۔
Being or Becoming
Contradiction
Reality or rational
Subject Vs object
Truth
ہیگل نے یہ سب کرکے کم از کم جدلیاتی مثالیت کا نظریہ استوار کرکے اسے روایتی تشریح (جو ارسطو، ایکوینس، بوعلی سینا وغیرہ نے کی) اُس سے بہت آگے بڑھایا ہے اور خالصتاً تحرک اور جدلیاتی بنیادوں پہ کھڑا کیا ہے۔ تو انسان کا شعوری و غیر شعوری سفر اسے اس کی خلقت پہ لے ہی آتا ہے۔ ہر فرد اپنے شعور کی طاقت کے مطابق اپنے ڈسکورس کی جانب اپنے راستے کا تعین خود کرتا ہے۔ کسی کو وہ راستہ فلسفے سے ہو کے جاتا ہوا دیکھائی دیتا ہے، کسی کو عقلیت سے، کسی کو توہمات سے تو کسی کو مذہب سے۔ ظاہر ہے راستے جدا جدا ہیں تو ڈسکورسز بھی جدا جدا نکلیں گے۔ جو ماحاصل کے طور پر ڈسکورس آئے گا وہ انسان کو کاملیت دے گا۔ اسی کاملیت کا عرفان پایا ہوا کسی فلسفی کی نظر میں اعلیٰ انسان ٹھہرا کسی کی نظر میں افضل، کسی کی نظر میں سوپر مین تو کسی کے معیار میں اوبرمنچ ایک نے اسے مردِ مومن بھی کہا۔
میں چونکہ جینیات کی ماہر نہیں ہوں سو کوئی مخصوص میکانزم یا آلہ تو پیش نہیں کر سکتی جو کسی فرد کی خلقت ماپ سکے۔ البتہ اس ضمن میں فلسفیوں سے رجوع کیا جا سکتا۔ شوپنہار نے کہا تھا کہ: انسان اپنی اصل (خلقت) سے محض تنہائی میں روبرو ہو سکتا ہے"۔
فریڈرک نطشے نے کہا کہ: عظیم ترین واقعات ہماری سب سے شوریدہ گھڑیوں میں نہیں، بلکہ سب سے خاموش ساعتوں میں جنم لیتے ہیں۔
بلیز پاسکل کا کہنا ہے کہ: انسانی مسائل کی جڑ صرف یہ ہے کہ انسان اکیلے کمرے میں خاموشی سے بیٹھنا نہیں جانتا"۔
اور علی ابنِ ابی طالب نے کہا کہ: "تنہائی انسان کو اس کی اصل سے ملاتی ہے"۔
جدید دور میں مراقبے (Meditation) کے ذریعے خودشناسی، حقیقت، خدا سے تعلق، اچھائی کی مشق اور برائی پر قابو پانے کو اس مد میں دیکھا جا سکتا ہے۔ انسانی نفسیات اور رویوں میں تنوع اس قدر ہے کہ اس میں اتار چڑھاؤ بہت عمومی بات ہے۔ ہم کسی بھی دوسرے فرد کے سامنے، ہجوم کے سامنے، اہلِ خانہ کے درمیان اور سوشل میڈیا پر بھی اپنے ہر ہر بیانیے کی سیکڑوں تاویلات تراش سکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا بخوبی دفاع کرنے میں بھی کامیاب رہیں۔ لیکن خلقت کے اسرار و عجائب (یہاں مراد تصوّف/ Mysticism سے زیادہ تجربیت/ empiricism ہے) کو جاننے کا سفر شروع کر سکتا ہے۔
شعوری و غیر شعوری، ارادی و غیر ارادی طور پر 8 بلین سے زیادہ انسان اسی سفر میں ہیں۔ مقصد شاید سفر کے ماحاصل ڈسکورس کا ہو بھی نا۔ کیونکہ یہ خالصتاً ذاتی پراڈکٹ ہے البتہ ایک شے آفاقی سچ اور مشترک ضرور ہے وہ سفر ہے۔ کسی بھی راستے سے، کسی بھی طریقے یا میکانزم کو اپناتے ہوئے۔ کسی بھی توانائی کے ساتھ۔ سو سفر جاری رہنا چاہیے اور بس جاری رہنا چاہیے۔۔

