Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Saudi Arab Mein Bike Delivery Ki Nokariyan

Saudi Arab Mein Bike Delivery Ki Nokariyan

سعودی عرب میں بائیک ڈلیوری کی نوکریاں

سعودی عرب میں فوڈ ڈلیوری بائیک رائیڈر کے پاس گزشتہ دو سے تین برسوں سے ہی آئی ہے، بعد از کرونا سعودی عرب میں فوڈ ڈلیوری میں ایسا اضافہ ہوا کہ Hungar station اور اس جیسی کئی ایپلیکیشن کے ساتھ کئی ایسے لوگ نوکری کے بعد کے فارغ وقت میں بھی کام کرنے لگے، مگر چونکہ یہ غیر قانونی ہے تو پکڑے جانے پر اچھا خاصا جرمانہ لگ جاتا ہے، یہ کام ابتدا میں گاڑیوں کے ذریعے ہی ہونے لگا تھا، لیکن بعد میں اس میں مقابلے بازی کی وجہ سے ڈلیوری چارجز میں ڈلیوری کرنے والوں کے لئے ریٹ کم ہونے لگے تو کچھ کمپنیوں نے باقاعدہ موٹر سائیکل والے رائیڈر رکھنے شروع کر دیے، ابتداء میں موٹر سائیکل والے رائیڈر زیادہ تر انڈیا و نیپال سے آئے، لیکن پھر یکدم ایسا ہوا کہ گزشتہ دو برسوں میں ان کی تعداد حیرت انگیز طور پر بڑھنے لگی اور اس وقت سعودی عرب میں جتنے بھی فوڈ ڈلیوری یا پارسل ڈیلیوری سے متعلقہ سروسز کے ادارے ہیں ان کے پاس کام کرنے والے 90 فیصد پاکستانی لڑکے آرہے ہیں۔

مسئلہ یہی ہے کہ پاکستان میں لوگ معاشی معاملات اور روزگار سے اس قدر پریشان ہیں کہ وہ پاکستان سے ہر حال میں بھاگنا چاہتے ہیں، اور ہر قیمت پر جارہے ہیں، لیکن یہ سمجھے بغیر کہ وہاں جن نوکریوں پر وہ کام کرنے جارہے ہیں، ان کے لئے کون سے لوگ ان نوکریوں کے لئے موزوں ہیں، یہ ایک سخت مزدوری والی نوکری ہے، سعودی عرب کا درجہ حرارت گرمیوں میں قریب تمام بڑے شہروں میں سخت ترین گرم ہوا کے ساتھ 45 سے 50 کے آس پاس ہی رہتا ہے، اس موسم میں موٹر سائیکل چلانا ایک عذاب کا نام ہے، چلیں کوئی بات نہیں سخت محنت کے عادی لوگ یہ کام کرلیں گے، لیکن دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ سعودی عرب میں موجود driving sense میں جو لوگ گاڑیاں چلاتے ہیں وہ ذہنی طور پر بالکل بھی موٹر سائیکل کے لیے یہ سوچ نہیں رکھتے کہ کوئی کٹنگ کرتا ہوا یہاں سے وہاں نکلے گا۔ اسی لئے ہر دوسرے چوتھے روز کسی نہ کسی سڑک پر ایک موٹر سائیکل سڑک پر گرا ہوتا ہے۔ میں نے پچھلے ماہ سے اب تک گاڑیوں کے ایکسیڈنٹ انتہائی کم دیکھے ہیں اور موٹر سائیکل رائیڈرز کے بے انتہا ایکسیڈنٹ دیکھے ہیں حتی کہ کچھ اموات تک دیکھی ہیں۔

پاکستانی ایجنٹوں کے ہاتھوں میں یہ موٹر سائیکل والے ویزوں کا کھیل بہت زبردست آیا ہے اور وہ ہر دوسرے چوتھے بندے کو اس ویزے پر بھیجنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یقین کر لیں کہ ایسی نوکری میں کسی کی بھی سیلری کا پیکج دو ہزار ریال سے اوپر نہیں ہو سکتا، یہ بھی میں ان کا بتا رہا ہوں، جو بہتر طریقے سے کام کررہے ہیں۔ ورنہ ایسی بھی کچھ سروس پرووائیڈر کمپنیز ہیں جو انہیں بنیادی طور پر پندرہ سو ریال بھی کسی ٹارگٹ کے ساتھ دے رہی ہیں اور ٹارگٹ کرنا ہے اتنا آسان نہیں ہوتا۔ کئی لوگ تو آ کر چند مہینے فری بیٹھتے ہیں، اور اتنی تنخواہ میں پاکستان میں صرف ان لوگوں کا گزارا ہو سکتا ہے جو لوگ گاؤں میں رہتے ہوں، جن کے گھر والوں کو اگر یہ بائیک رائیڈر زیادہ سے زیادہ پاکستانی 80 ہزار روپے ماہانہ بھیج پائیں گے۔

اس کے بعد اس قدر سخت محنت اور مسلسل ایک جان لیوا کیفیت کی نوکری ہے۔ میں اکثر یہاں پر جب کسی رائڈر کو دیکھتا ہوں خوش بھی ہوتا ہوں کہ یہ لوگ محنت کر رہے ہیں لیکن جس طرح سے وہ پاکستانی انداز میں موٹر سائیکل بھگانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں انہیں دیکھ کر ڈر لگنے لگتا ہے، کیونکہ یہاں کی سڑکیں اور ڈرائیونگ کا انداز اس طرح کی بائیک رائیڈرنگ کی اجازت نہیں دیتا۔ مزید اگر ٹریفک خلاف ورزی ہو جائے تو اچھا خاصا نقصان الگ ہوگا آدھی تنخواہ تو غریب اس میں دے دے گا۔

اس تنخواہ میں ایسا نہیں ہے کہ کچھ لوگ خوش نہیں ہیں، میں نے کئی بائیک رائیڈر سے انٹرویو لیے ہیں، مجھے یہاں پر صرف وہی لوگ اس میں مطمئن نظر آئے ہیں جو بالکل دیہی علاقوں کے محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو سخت محنت کر سکتے ہیں اور ہزار ریال اگر گھر بھیجیں تو ان کے گھر کا گزارا بہت آسانی سے ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے بہرحال یہ ایک مناسب موقع ہے، باقی جو لوگ اس بائیک رائڈنگ کو گلیمرائز کرکے تمام لوگوں کے لیے پیش کر رہے ہیں وہ یقین کر لیں کہ یہ نوکری اتنی آسان نہیں ہے، اور اس میں جان کا خطرہ بھی شدید موجود ہے۔

اس لئے جو لوگ فوڈ ڈیلیوری بائیک رائینگ کے ویزے پر آنا چاہتے ہیں وہ یہ باتیں سوچ کر آئیں۔ خصوصا پاکستانی ویزا ایجنٹ تو دنیا کی بدترین مخلوق ہیں۔ وہ ان کو جھوٹے خواب ہی دکھائیں گے۔ یہ نوکری صرف ان لوگوں کے لیے جو صرف جسمانی محنت کر سکتے ہیں، یعنی سارا دن ایک تھکا دینے نوکری شدید گرم موسم میں مسلسل موٹر سائیکل چلا سکیں۔ موٹر سائیکل چلانا کوئی ہنر تو ہے نہیں، ہنر سیکھیں اور کسی اچھی نوکری پر آئیں۔

Check Also

Special Bachon Ka Social Network

By Khateeb Ahmad