Friday, 22 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Marital Rape

Marital Rape

میریٹل ریپ

اس موضوع پر لکھنے کا کبھی موڈ نہیں تھا یہ صرف ایک رد عمل کی تحریر ہے، میریٹل ریپ کی اصطلاح ہمارے معاشرے میں قدرے نئی اصطلاح ہے، مگر ہماری سوسائٹی یا برصغیر کے معاشروں میں اس کی گونج کچھ عرصے سے مغربی معاشرت کی نسبت زیادہ سنائی دیتی ہے۔۔ یہ کہنا انتہائی عجیب لگتا ہے کہ بیویاں اپنے شوہر کے ہاتھوں ریپ ہوتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ لفظ "میریٹل ریپ" صرف ایک یا دو دہائی سے سامنے آیا ہے۔ لیکن چلیں کسی لفظ کے سامنے آنے یا کسی اصطلاح کے سامنے آنے سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کا حقیقت سے تعلق نہیں ہو سکتا۔ برصغیری معاشرت میں شادی قدرے حد تک ایک مشکل عمل ہے، میرے خیال میں یہاں لوگ ترس کر ہی شادی تک رسائی رکھتے ہیں۔ اس کے معاشی اور نظریاتی پہلو بھی ہیں، مگر شادی ایک بہرحال ایسا رشتہ ہے، جس میں عموماََایسا عمل جسے میریٹل ریپ کہا جائے، کا وقوع ہونا اتنا آسان عمل نہیں ہے۔

اب جس تفہیم کو ہم "میریٹل ریپ" کہتے ہیں، اس سے مراد شادی ہی لی جائے گی۔ یعنی شادی شدہ زندگی میں شوہر کا اپنی بیوی سے غیر رضامندی یا ذہنی و جسمانی طور پر تیار نہ ہونے کے باوجود جنسی عمل ہے، اس کے مزید زمرے ریلیشن شپ، اور کوئی بھی شادی کے بغیر دو فریقین میں بننے والے فزیکل ریلشن شپ میں کبھی ہاں اور کبھی ناں (نیم رضامندی و بغیر رضامندی) کو بھی آپ میریٹل ریپ میں گننا چاہتے ہیں؟ اس کا مجھے اندازہ نہیں ہے۔ ڈیٹ ریپ کو ازدواجی تعلق سے جوڑنا بھی عجیب لگتا ہے، اور جو لوگ شادی شدہ زندگی گزارتے ہیں۔ انہیں بہت اچھی طرح سے اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ میرٹل لائف میں جنسی عمل کبھی کمفرٹ ہوتا ہے، اور کبھی ان کمفرٹ بھی ہوتا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ یہ میریٹل ریپ ہماری سوسائٹی میں حقیقتا اتنا موجود ہے کہ اس کے اوپر باقاعدہ واویلا کیا جائے۔ اس بات کو آگے واضح کرتا ہوں۔

کیونکہ جب دو فریق ایک بار فزیکل ہوں جائیں، تو ان میں پھر فزیکل ہونے کے لئے بہت پاپڑ بیلنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ یعنی اس عمل کے لئے آسانی رہتی ہے۔ ہاں ایسا ہوتا ہے کہ ایک فریق وقتی راضی نہ بھی ہو تو دوسرا کرلیتا ہے، اور ازدواجی زندگی میں یہ راضی کرنا بہت سارے دوسرے معاملات کے ساتھ جڑا ہوتا ہے جس میں دونوں فریق کا ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے ایک دوسرے کی (جنس کے علاوہ) ضرورت کا پورا کرنا، مگر کبھی ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک مائل بہ رغبت ہو اور دوسرا فرد راغب نہ ہورہا ہو، تو اول فریق کسی درجہ زبردستی کرے، تو کم ازکم اسے اس ضمن اسے زبردستی ہی مانا جائے گا، لیکن ہمیں شادی میں ایسے عمل کے لئے تھوڑا اسپیس دینا ہوگا۔ یعنی شادی جنسیات کے لیگل اسٹیٹس کا ہی نام ہے دو مختلف جنس کے افراد معاشرے میں اپنے اس عمل کے لئے ہی کانٹریکٹ کرتے ہیں، کانٹریکٹ دو طرفہ معاہدہ ہے۔ دو طرفہ حقوق کا ضامن رشتہ ہے۔

شادی میں جو لوگ سمجھتے ہیں کہ میریٹل ریپ ہوتا ہے، میرے خیال میں ایسا زیادہ تر نہیں ہوتا، سوال تو یہ ہے کہ میاں بیوی کے رشتے میں لفظ ریپ بہت عجیب سا جملہ لگتا ہے، رضامندی اور غیر رضامندی جیسے الفاظ ضرور ہو سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ بھی پوری ایک کیفیت موجود ہوتی ہے۔ اصولا تو میریٹل ریپ اگر لفظی معنویت میں قبول بھی کر لیا جائے۔ تب ایسا کرنے والا شخص صرف میریٹل ریپ ہی نہیں کرتا بلکہ وہ پوری ازدواجی زندگی میں ہر معاملے میں ہی گھٹیا رویے کے ساتھ ہوتا ہے، جہاں ایسا عمل تواتر سے ہوگا، تب وہاں ایک فریق ہمیشہ غلط ہوتا ہے، یعنی وہ شادی کا رشتہ توازن میں نہیں ہوتا۔ اس کی وجوہات کے عوامل کچھ اور ہوسکتے ہیں۔ یعنی شادی میں میریٹل ریپ مرد کی طرف سے ہی ہوگا تو جو مرد یہ عمل جنسی تعلق کے لئے اگر ریپ کی صورت کرتا ہے وہ شخص اپنی زندگی میں اپنے پارٹنر کو زندگی کے ہر عمل میں ہی ایسے ڈیل کرتا ہوگا۔ یعنی اگر میں اسان الفاظ میں کہوں تو وہ شخص ازدواجی زندگی کے پورے سفر میں اپنا معاملہ ایک جانور کی طرح رکھتا ہوگا۔

تو سادہ سی بات ہے کہ ایسے جانور کے ساتھ کیا رہنا؟ جو کسی کی پوری زندگی کو ہی عذاب بنا کر رکھتا ہو۔

ورنہ شادی شدہ زندگی میں جنسی عمل سے بیویاں بہت سی وجوہات کی بنیاد پر بھی منع کردیتی ہیں، (کسی حقیقی وجہ کے بغیر) تو اسے انکار نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ ان کا کمفرٹ زون بہتر کرنا چاہئے مطلب گیزر نہیں چل رہا، جیسے مثلا ابھی تو لازمی نہانا ہوگا پہلے میں نماز پڑھ لوں، یہ کر لیا تو کھانا بنانے میں دیر ہو جائے گی، دن بھر کی تھکان ہے صبح بچوں کو سکول بھیجنا ہے یا فلاں فلاں یا وغیرہ وغیرہ۔ اس سب کے باوجود بھی ازدواجی زندگی کی ایک اپنی سائنس ہے جس میں بالاخر رضامندی ہو ہی جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس رضامندی میں بھی واقعی کتنی رضامندی ہے، یہ بھی ایک نفسیاتی مسلہ ہے، کیونکہ ہمارے ہاں شادی سیکس کے لئے ہی کی جاتی ہے، اور ظاہر ہے وہ کرنا ہی ہوگا۔ مگر فریقین اس عمل کے لئے ایک رومانٹک ماحول نہیں بنانا چاہتے، اچھے روئیے، اچھا ماحول تھوڑے سے یک طرفہ عمل کو بھی رضامندی میں تبدیل کردیتا ہے، ویسے یہ احساس کا مسلہ ہے، جو شخص بغیر دلی خواہش کی آمادگی کے ایسا کرتا ہے عموماََاس کا فریق اس عمل سے گزر کر بے زار ہوجاتا ہے اور پھر وہ ہمیشہ ہی تکلیف سہتا ہے اور راضی نہیں ہوتا۔ یہ بہت سارے نفسیاتی پہلو ہیں جن میں مرد و عورت دونوں کی شادی شدہ زندگی میں تربیت اور دوسرے کے حقوق کی انڈراسٹینڈنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔

باقی ہماری سوسائٹی میں میریٹل ریپ کے عمومی طور پر کہے جانے کو میں قبول نہیں کرتا۔ میں اس میں بہرحال دونوں فریقین کو کچھ اسپیس دینے کا قائل ہوں۔ ہاں بغیر شادی شدہ زندگی کے ریلیشن شپ میں چونکہ حقوق کی ذمہ داری کانٹریکٹ میں نہیں ہوتی ہے تو وہاں میں بغیر رضامندی کسی فریق کو کسی بھی قسم کے فورس کے کرنے سے بالکل متفق نہیں ہوں۔ دوسری بات یہ جو مذہب کی طرف اعتراض کیا جاتا ہے کہ عورت کو ہر حال میں شوہر کی خواہش کا احترام کرنے کے بارے میں کہا جاتا ہے، اس کی تشریح میرا خیال ہے دونوں اطراف سے یہ شدت پسندی سے دی جاتی ہے مذہبی طبقہ بھی جس شدت سے عورت کو یہ بات سمجھانے کے لیے قائل کرتا ہے وہ بھی درست نہیں ہے، اور جو لوگ اس بات کو بنیاد بنا کر اس وقت تنقید کرنا چاہتے ہیں، خصوصا اس میں عورتیں شامل ہوتی ہیں یہ بات ضرور سمجھ لیں کہ پھر وہ یہ گلہ ھی نہ کریں کہ بیویوں کے بجائے دوسری طرف دیکھتے ہیں، یہ تو ایک انتہائی خوبصورت مذہب کی طرف سے ترغیب دی جاتی ہے، اگر اس کی حقیقت دیکھی جائے تو یہ تو خواتین کو ایک ایسی ترغیب دی گئی ہے کہ وہ اپنے شوہروں کو اس معاملے میں ان کی ضرورت میں اتنا قابو رکھیں گے وہ کسی اور طرف سوچیں بھی نہیں۔ جب ازدواجی زندگی میں جڑے دو افراد آپس میں ایک دوسرے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہوں گے، تو ازدواجی زندگی سے باہر اس ضرورت کی طرف دیکھنے کے امکان میں بھی کمی آتی ہے۔

Check Also

Pasand Ki Shadi

By Jawairia Sajid