Eman Khalif Ke Khilaf Mutassab Muhim
ایمان خلیف کے خلاف متعصب مہم
پیرس کے حالیہ اولمپکس میں الجزائر کی باکسر ایمان خلیف کے خلاف ایک پرتشدد مہم سوشل میڈیا پر مقبول ہوئی، خصوصا اس کے ایک مقابلے کے بعد جب مخالف کھلاڑی کے ناک آؤٹ ہونے کے بعد یکدم سوشل میڈیا پر اسے ایک عفریت، مرد اور اسے ٹرانسجینڈر کہہ کر اس کا مضحکہ بنایا گیا۔ یہ عمل صرف اکیلی ایمان خلیف کے ساتھ نہیں اور یہ صرف حالیہ پہلا واقعہ بھی نہیں ہے، بلکہ کھیل کے میدان میں خواتین کھلاڑیوں کے خلاف تشدد پر اقوام متحدہ سے UNESCO کی پوری ایک رپورٹ موجود ہے، صرف حالیہ پیرس کے اولمپک گیمز میں 87 فیصد ایسے واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹویٹر اور ایکس میں خواتین کھلاڑیوں کے خلاف بددیانتی ہر مبنی تشہیر کی گئی، ان کے صنفی امتیاز پر بات کی گئی، اور ان کے جسمانی اساخت پر گھٹیا اور رکیک جملے لکھے گئے ہیں۔
ایسی بہت سی رپورٹ صحافیوں کی کوریج کی پوری دنیا میں بھی موجود ہیں، جن میں جنسی تعصب کی مثالیں موجود ہیں، اس میں ان خواتین کے کھیل کی بجائے یا ان کھلاڑیوں کے کھیل کی خصوصیت کے بجائے خواتین کھلاڑیوں کی جسمانی شکل، عمر اور نجی زندگی کو گھٹیا طریقے سے ڈسکس کیا گیا ہے، اور انہی صحافیوں کی رپورٹ میں مرد کھلاڑیوں کی کامیابیوں اور ان کے کھیل کی کارکردگی پر بات کی گئی ہے۔ یعنی صنفی امتیاز موجود رہا ہے۔
سنہء 2023 میں ایک آسٹریلوی صحافی (لبنانی نژاد) ڈیوڈ بشیر نے آسٹریلوی میڈیا میں ایک زبردست تنازعہ کھڑا کیا تھا، جو اس تبصرے کی وجہ سے ہوا تھا جب اس نے ایک خاتون فٹ بال کھلاڑی کی زچگی کے بعد اس کے کھیل کی کارکردگی کو بہت غیر مناسب لفظوں میں کیا تھا۔ باکسنگ کی ایک اور سابق باکسنگ چیمپیئن میریم لامارے کے لیے بھی ایسے ہی سخت اور غیر مناسب جملے لکھے گئے، کہ "لاکر روم میں، میریم لامارے مختصر شارٹس پہنتی ہیں، اپنے سیکسی پٹھوں کو دکھاتی ہیں، مضبوط بازو اور کمر جس کی آپ کسی مرد سے توقع کریں گے۔۔ "
یعنی خواتین باکسرز کے بارے میں اس طرح کی بات کوئی نئی نہیں ہے ظاہر ہے کہ خواتین باکسرز کو بھی اپنا جسم کثرتی بنانا ہی پڑتا ہے کہ وہ ایس کھیل کا لازمی حصہ ہے۔ اب مسلہ کہاں ہے، ظاہری شکل اور نسائیت میں ہے یا مسئلہ جنسی کردار میں ہے جسے میڈیا خواتین کھلاڑیوں کے جسموں کو دینے کی کوشش کرتا ہے۔ سنہء 2004 میں ایتھنز میں اولمپک گیمز کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ Beach hand ball میچوں سے نشر ہونے والی 20 فیصد فوٹیج میں خواتین کھلاڑیوں کے سینوں اور کولہوں کو خصوصی کلوز آپ شاٹ میں دکھایا گیا تھا۔
اب اصل قابل غور بات ہے، کہ یورپی یونین کی جانب سے ناروے کے بیچ ہینڈ بال کھلاڑیوں کو سزا دینے کا فیصلہ تھا کہ ان کے کھیل کا لباس بہتر کیا جائے، خواتین کھلاڑی آرام دہ یا ذرا بہتر اور زیادہ لباس پہن سکتی ہیں، لیکن حقیقتا خواتین کھلاڑیوں کو لباس کے انتخاب کی آزادی نہیں ہے، گویا ان کا جسم فیڈریشن، اشتہاری کمپنیوں اور میڈیا سے تعلق رکھتا ہے۔ اب اصلا یہ رجحان آج کے سوشل نیٹ ورکس میں خصوصا نظر آتا ہے جو ریٹنگ حاصل کرنے کی امید میں خواتین کھلاڑیوں کے جسم کی نمائش پر زیادہ فوکس کرکے دکھاتے ہیں۔
مراکش کی جوڈو ریسلر (سینیگالی نژاد) اسما نیانگ کا "وومن اسپورٹس" میگزین کو دیا گیا یاک انٹرویو موجود ہے جس میں اسما نے یہ کہا تھا کہ "بہت سی خواتین کھلاڑی ایسی تصاویر شائع کرواتی ہیں جو ان کے جسم کو ظاہر کرتی ہیں، اور وہ جتنا زیادہ دکھاتی ہیں، انہیں اتنے ہی زیادہ "لائکس" ملتے ہیں۔
اس کے لئے بہترین مثال خوبصورت روسی ٹینس کھلاڑی اینا کورنیکووا ہیں، جو بالکل بھی ایتھلیٹکس میں بہترین کھلاڑیوں میں شمار نہیں کی جاتی تھیں، مگر انہیں میڈیا کوریج بہت ملتی تھی۔ عجیب بات ہے کہ خواتین ایتھلیٹس کو بطور کھلاڑی ان کی کارکردگی پر نہیں، بلکہ ان کی نسوانیت کہ معیار پر دیکھا جاتا رہا ہے، جو نسوانیت کے روایتی معیارات پر پورا نہیں اترتی، انہیں اکثر مضحکہ خیز انداز اور امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے، خاص طور پر سوشل میڈیا پر اسی رجحان کا یہ حالیہ واقعہ ہے، جو سوشل میڈیا کے "X" پلیٹ فارم پر الجزائر کی باکسر ایمان خلیف کے خلاف ہونے والی ایک پرتشدد مہم رہی، اس سے بھی بڑا المیہ کہ خود X پلیٹ فارم کے مالک ایلون مسک نے اس تضحیک میں حصہ لیا، اور X پر اس کے اکاؤنٹ کے 190 ملین فالوورز ہیں۔
ایمان خلیف اکیلی نہیں بلکہ ایمان خلیف سے پہلے، امریکی ٹینس چیمپیئن سرینا ولیمز، فرانسیسی امیلی موریسمو، جنوبی افریقہ کی کاسٹر سیمینیا، ایرانی زہرہ گودائی اور دیگر خواتین اس گھناؤنی غنڈہ گردی کی مہم کا نشانہ بنایا گیا، اور اس تضحیک کی حوصلہ افزائی سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے کی گئی۔ میڈیا کوریج جس کا ان کی کھلاڑی خواتین کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ خواتین کے لیے ان کا مثالی نسوانی جسم ے روایتی تصور کے بارے میں میں موضوع رہا۔ وہ انہیں بطور کھوپڑی نہہں بلکہ ایک نسوانی جسم کے طور پر روکتے رہے۔
نوٹ: ایمان خلیف پر ہمارے ہاں بھی یہ خبر پہنچی تو ہمارے ہاں اس پر ایک عجیب تماشہ لگا کر اسے ٹرانس جینڈر وغیرہ ثابت کیا گیا۔ مگر یہ سب سوشل میڈیا اور روایتی سوچ کا پروپیگنڈہ رہا۔ میں نے اس موضوع پر ابھی تک نہیں لکھا تھا، سوچا کہ اس پر تھوڑا ریسرچ کرلی جائے تو پتہ چلا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ایک کھلاڑی عورت کو خصوصا نسوانیت کے پیمانوں پر جانچنا ایک انتہائی بڑی بے وقوفی بھی ہے اور اس کی تضحیک کرنا انسانیت سوز عمل ہے۔