Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Barzakh, Samaji Tanazur Mein Aik Tanqeedi Jaiza (1)

Barzakh, Samaji Tanazur Mein Aik Tanqeedi Jaiza (1)

برزخ، سماجی تناظر میں ایک تنقیدی جائزہ (1)

آج کل برزخ فلم پر تائید و تنقید کا موسم چل رہا ہے، میں نے سوچا میں بھی برزخ پر لکھوں، برزخ ڈرامے کو تکنیکی طور پر دیکھیں تو بہترین Cinematography ہے، میں عمومی کسی فلم یا ڈرامے کو عامیانہ طرز پر نہیں، بلکہ موضوعاتی طرز پر یا پھر اس کے معاشرتی، نفسیاتی یا فلسفیانہ پہلوؤں کے تناظر میں ہی دیکھنا پسند کرتا ہوں، برزخ کی کہانی میری نظر میں ایک Art of piece ہے، جس میں لکھنے والے کے قلم کی رفتار ایک عرب گھوڑے کی طرح دوڑ رہی تھی۔ یہ قلم کی طاقت کا اظہار ہے، کہ جب قلم آزاد ہو جائے تو اس کی کوئی حدود نہیں رہتی۔

برزخ ایک Wild Story ہے۔ جس میں رائٹر نے اپنی تخیل کی پرواز کو لگاموں سے آزاد کردیا ہے، آپ ایسا سمجھ لیں کہ Imagination کو ایک ایسے گھوڑے پر سوار کرکے لگاموں کو تخیل کے تابع کردیا اور لگاموں کو خیال ایسے چلارہے ہیں جیسے وہ دماغ کے کنٹرول میں نہیں ہوں اور بھاگتا چلا جا رہا ہو، اور اس کی کوئی سمت کا تعین بھی نہیں، اور جب کوئی ڈائریکشن متعین نہ ہو تب آپ اس کو بالکل اسی طرح سے سمجھ سکتے ہیں کہ جب ہم رات میں سوتے ہیں اپنی آنکھیں بند کرتے ہیں تو ہم ایک ایسی دنیا میں پہنچتے ہیں، جہاں پر ہمارا ذہن ہمیں ایک ایسی دنیا میں پہنچاتا ہے، جہاں ہم بہت سارے لوگوں سے بہت ساری جگہوں پر روزانہ ملتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں نہ کبھی ہم نے وہ جگہیں وزٹ کی ہوتی ہیں نہ کبھی ان لوگوں کو دیکھا ہوتا ہے تو بالکل اسی طرح سے اس رائٹر نے اپنی تحریر کو وقت، مذہب یا کسی بھی معاشرتی و واقعاتی حدود و قیود سے آزاد رکھا ہے۔

ویسے عموماََجب بھی کوئی رائٹر کوئی بات لکھتا ہے، تو اس کے سامنے کوئی طے شدہ موضوع یا خیال ہوتا ہے اور جیسے لکھاری جانتے ہوں گے کہ جب بھی آپ کے مد نظر کوئی موضوع ہوتا ہے تو لکھاری اس ٹاپک کو اپنے سامنے رکھتے ہیں اور اس کے ہر اینگل کو وہ کور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہاں برزخ کے رائٹر نے اس کہانی کو اپنی تحریر میں بالکل ہی اپنی امیجینیشن پر چھوڑ دیا ہے، اور اپنے سامنے اس نے جو "برزخ" کا موضوع اٹھایا ہے، وہ بذات خود ایک بہت ہی نامکمل ہے، نامکمل اسی لئے ہے کیونکہ ہم لوگوں میں سے کوئی بھی برزخ نہیں گیا، نہ ہی اگر کوئی گیا ہے تو بھی کبھی وہاں سے واپس آیا، تو اگر آپ صرف اس موضوع پر بات کرنا چاہتے ہیں تو حقیقتا یہ موضوع Itself بالکل ہی Incomplete ہے، تو جو موضوع ہی جان بوجھ کر نا مکمل رکھا گیا ہے، تو مجھے حیرت ہے کہ لوگ اس پر تنقید کس رخ سے کرنا چاہتے ہیں؟ اس کا Sense ہی نہیں بنتا، بلکہ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ڈرامے کا رائٹر جو بات کر رہا ہے وہ خود اپنے اندر نا مکمل ہے وہ اپنی اس تحریری تخلیق جسے ڈراماٹائز کیا گیا ہے، اسے برزخ کہہ رہا ہے، وہ تحریر کی نہ سمت مقرر کرسکا ہے، نہ ہی اس تحریر کے سوالوں کو کسی منطق تک پہنچا سکا، بلکہ یہ تحریری تخلیق بہت سارے نفسیاتی، معاشرتی، انسانی، تخلیقی، توہم پرستی، کہیں کہیں مذہبی اور انسانی رویوں کی عکاسی کرنے والے بے شمار نامکمل سوالات اور نامکمل جوابات کا ایک سلسلہ ہے، ایک کھوج ہے، اور اس کھوج کے سوالوں کو کرداروں میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے تاکہ اپنے سوالوں کو خشک یا مبہم فلسفیانہ گنجلک کے بجائے کرداروں کی صورت میں پیش کیا جائے۔ وہ صرف آپ کو سوچنے پر مجبور کررہا ہے، وہ آپ کو آپ کے معاشرتی و نفسیاتی مسائل کا ادراک کروا رہا ہے۔

یہ ڈرامہ اپنے نام یا ڈرامے میں پیش کئے جانے والی کئی چیزوں پر بظاہر مذہبی طبقے کی طرف سے قابل مذمت ہتایا جارہا ہے، جیسے برزخ کا تصور جس طرح دکھایا جارہا ہے، میں اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا رائٹر کے لئے یہ مجبوری تھی کہ وہ اپنے سوالات و خیالات کو کرداروں میں ڈھالے، ورنہ اس اپروچ کے لئے مذکورہ کردار اور جغرافیہ، مقامی تہذیبی زندگی و مقامی مذاہب میں سے کوئی بھی چیز ان سوالات و تخیل کو پیش کرنے میں حقیقتا قریب ترین نہیں کرسکے، کیونکہ پاکستانی سوسائٹی میں اس تخیل اور سوالوں کے مطابق کردار پیش کرنا ممکن نہیں تھا، اس لیے عام حقیقی زندگی کے مقابل یہ ایک عجیب کردار محسوس ہوتے ہیں، پورا گھرانہ ایک خاص تصور اور نفسیاتی رویوں کا شکار اور مخصوص اپروچ کے ساتھ کیسے نظر آسکتا ہے؟ مگر کیا دنیا کے ہر مذہبی myth میں ایسی باتیں موجود نہیں ہیں، کیا ہم مسلمانوں میں ہی عالم ارواح کا تصور موجود نہیں ہے؟

میں اہلیہ کی ساتھ الحساء گیا تو میری اہلیہ پرانے کھنڈرات و قلعوں میں قدیم نخلستانوں میں جا کر مجھے کہتی ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ "جیسے میں یہاں پہلے ان مقامات پر آئی تھی، میں یہاں سے گزری تھی وہ ان مقامات پر مجھے بار بار یہی کہتی رہی کہ مجھے محسوس ہوتا ہے یہ مقامات میرے جانے پہچانے ہیں، "" لیکن میں نے اتنا سنجیدگی سے نہیں سنا، کسی نئے مقام پر جاکر کبھی کبھی آپ کو ایسا نہیں لگ رہا ہوتا ہے، جیسے یہ سب کچھ کچھ دیکھا ہوا ہے، اس وقت وہ سب دیکھ کر آپ کو عجیب سا لگ رہا ہوتا ہے آپ کے ساتھ کچھ ایسا ہوا ہو، ہم ہر چیز کو عقل کی بنیادوں پر جانچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کئی چیزیں مابعدالطبیعاتی بھی ہوتی ہیں، اور مابعدالطبیعاتی مظاہر کو آپ عقل کی بنیادوں پر نہیں جانچ سکتے۔ جیسے ہم عالم ارواح کا تذکرہ بھی تو انہی معنوں میں کرتے ہیں۔

رائٹر نے اپنی تحریر میں مرکزی کردار سلمان شاہد میں ایک ایسے آدمی کی کہانی بیان کرنے کی کوشش کی ہے، جس کی ایک محبت بچھڑ جاتی ہے اور وہ اس کو ہمیشہ حاصل کرنے کی کوشش میں رہتا ہے، یہ نہیں کہ وہ نارمل زندگی نہیں گزارتا ہے، بلکہ اس کی دو شادیاں بھی ہوتی ہیں، اس کے بچے بھی ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی اس محبت کے Trance سے کبھی باہر نہیں آ سکتا اور پھر وہ اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن یہی کردار ایک خودغرض مفاد پرست Selfish شخص بھی ہے کیونکہ وہ ایک طرف محبت حاصل کرنے کا دعوی تو کر رہا ہے لیکن اس نے جو شادیاں کی اس میں ایک عورت سے Lust کے لیے شادی کی جس کے پاس پیسہ تھا مینگوز کے Orchid تھے اور وہ Orchid مینگو ہے، باتھ ٹب میں بار بار وہ مینگو چوستی ہوئی عورت اس لیے دکھائی ہے کہ وہ ایک مالدار عورت ہے اس کے پاس باغات ہیں۔

اسی آم کے باغات والی عورت سے اس کا ایک بیٹا (فواد خان) ہے، جس نے کبھی اپنے باپ کی محبت کو ویسے نہیں محسوس کیا، اس نے ہمیشہ یہی دیکھا کہ میری ماں کے ساتھ میرے باپ کا رویہ اچھا نہیں تھا اور اسی لیے اس نے ایک شادی کی اور شادی کرنے کے بعد بھی وہ اپنے اندر یہ کوشش کرتا رہا، کہ میرا رویہ اپنے باپ جیسا نہ ہو، لیکن وہ اس کوشش میں ناکام رہا اس کی بیوی اس کے روئیے کی وجہ سے ایک دن خودکشی کر لیتی ہے، یہ نفسیاتی مسائل کی وہ گرہ دکھائی گئی ہے، جب آپ اپنے والدین کی طرف سے کئی معاملات میں نفسیاتی پریشر کا شکار رہے ہوں، تو پھر آپ یہ سوچتے ہیں کہ جب میں بڑا ہو جاؤں گا یا میں عملی زندگی میں آؤں گا تو میں یہ سب کچھ اپنی اولاد یا بیوی کے ساتھ نہیں کروں گا تو کبھی ایسا نہیں ہو پاتا، آپ غیر محسوس طور پر وہی کام کرتے ہیں۔

یہ بات ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں، میری اہلیہ کی والدہ نے بطور ایک متوسط طبقے کے اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دلوانے کی کوشش کی، کیونکہ ان کے دوسرے رشتے داروں میں زیادہ تر بہترین تعلیم یافتہ لوگ یا تو حکومتی اداروں میں بہترین نوکریوں پر یا پھر غیر ممالک میں اسکالر شپ پر گئے، تو اہلیہ کی والدہ کی طرف سے انہیں پڑھائی کے معاملے میں بہت زیادہ سختی کا سامنا رہا، میری بیٹی جس اسکول میں ہے وہاں وہ بہترین اسٹوڈنٹس کے سب سے زیادہ ٹائٹل لیتی ہے، مگر اس کے باوجود اہلیہ اس کی پڑھائی کے معاملے میں ہر وقت شدید پریشر کرتی ہے، شائد وہ غیر شعوری طور پر اپنے اوپر ایک وحشت طاری کر لیتی ہے جس سے وہ باوجود چاہ کر بھی نہیں نکل پاتی، وہ کیفیت اس پر حاوی ہوجاتی ہے، وہ ہر وقت اسی خیال میں رہتی ہے، کبھی بھی وہ بیٹی کو ایک دم ایک خیال آنے کے بعد کہتی ہے جاو اپنی میتھ کی بکس لے کر آو، اپنی انگریزی اور اردو کی کتاب لے کر آؤ، آج تم نے فلاں کام نہیں کیا، وہ رویہ تھوڑا شدت پسندانہ ہوتا ہے، شائد لا شعوری طور پر بہت سی نفسیاتی پریشر کا حصہ رہتا ہے، جو اس نے اپنے بچپن میں برداشت کیا، جس سے وہ آج تک باہر نہیں نکل سکی۔ جیسے پڑھائی کے معاملے میں میری اہلیہ کی والدہ انہیں ڈانٹتی تھیں۔ بالکل ویسے ہی میں بھی لاشعوری طور پر ہونے بچپن کے، بہت سارے خوف، تحفظات اور حسرتوں کے ڈر سے آج تک نہیں نکل سکا، میں بھی لا شعوری طور پر ایسے بہت سارے کام اور باتیں کرتا ہوں جو شائد میرے بچپن کے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل تھے۔

آپ لاشعوری طورپر ایسا بہت کچھ کررہے ہوتے ہیں، جو حقیقتا سماجی روئیے میں ایک بگاڑ کی صورت پیدا کررہا ہوتا ہے یا پیدا کرسکتا ہے۔ بچوں یا بیوی پر آپ کی بے جا جرح اکثر انہیں کوئی ایک ایسا غلط قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتا ہے، جیسا اس ڈرامے میں فواد خان کی بیوی کی خودکشی اس کے اسی بچپن کے نفسیاتی عوامل کا ایک سبب دکھایا ہے۔

اسی ڈرامے میں سلمان شاہد کا جو دوسرا بیٹا دکھایا ہے، وہ ہمیشہ سے ڈرا ہوا اور خوفزدہ ہے اس کے باپ نے اس کو فارن ملک میں بھیج دیا ہوتا ہے، وہ اکیلا وہاں رہتا ہے اب جو شخص اکیلا رہا ہے، ہو سکتا ہے اس کے ساتھ کچھ اس طرح کا ہوا ہو کبھی LGBT بھی یا اس سے متعلقہ کچھ بھی، لیکن لکھاری تو یہ سب باتیں آپ کے سوچنے کے لئے چھعڑرہا ہے، لکھاری نے ان سب کرادوں کے ان رویوں کی وجوہات ہمیں نہیں بتائیں، بلکہ وہ ہمارے سوچنے کے لیے اس نے چھوڑ دیا وہ لڑکا ایسا کیوں ہے وہ ڈرا ہوا ہے خوفزدہ وہ زیادہ بول نہیں پاتا وہ پریشان سا رہتا ہے تو یہ بھی ایک سائیکالوجیکل پریشر ہے۔

اس کے کردار کو دوسرے کردار کے ساتھ جس ہم جنس پرستی کے خیال کے تحت دکھایا گیا وہ یقینا lust ہے، انسانی فطری جبلی تقاضا بھی ہے، مگر اس کی تکمیل کے غیر فطری یا فطری ہونے پر ایک مکالمہ چھوڑ دیا گیا ہے، ویسے کبھی کبھی محبت کے ترسے ہوئے لوگوں کو کسی دوسرے فرد سے کسی بھی حساب سے کمفرٹ مل رہا ہو، کسی بھی بات سے، رویے سے، اظہار سے، محبت سے، کلام سے، احساس سے تو آپ اس کمفرٹ کو چاہے کسی صورت ہو آپ اپنی انسکیورٹیز کو ان کمفرٹ میں چھپانا چاہتے ہیں، اور آپ کو نہیں پتہ ہوتا کہ آپ اس کو کیا نام دے رہے ہیں، آپ اس کو سیکس کا نام دے رہے ہیں، آپ اس سے ذہنی طور پر کلوز ہو رہے ہوں، حتی کہ آپ اگر کسی طرح فزیکل بھی ہو رہے ہیں تو آپ اس میں کیا چاہ رہے ہیں اس فزیکل ہونے میں آپ Lust لینا چاہ رہے ہیں، آپ کمفرٹ کا احساس کرنا چاہ رہے ہیں، آپ تھوڑی دیر کے لیے اپنی سوچوں سے بھاگنا چاہ رہے ہیں شائد یہ آپ کو نہیں پتہ ہوتا۔

میں کوئی جواز نہیں دے رہا، جو مذہبی لوگ اس پر جرح کرنا چاہتے ہیں وہ ضرور جانتے ہونگے کہ مسجد یا مدرسے میں بیٹھ کر سفید ریش بزرگ مذہبی کتاب سامنے رکھ کر یہ کام کم سن بچوں سے زبردستی کرتے ہیں۔ جیسے مغربی ممالک میں بھی چرچ میں پادریوں کے کم سن بچوں کے ساتھ کئے جانے والے زبردستی جنسی معاملات سامنے آتے ہیں۔

جاری۔۔

Check Also

Shahbaz Gill Ka Kharaak, Shukria

By Nusrat Javed