Bar e Sagheer Mein Radd e Islam Par Likhe Jane Walay Ibtidai Qurani Tarajum
برصغیر میں رد اسلام پر لکھے جانے والے ابتدائی قرآنی تراجم
ترجمہ قرآن پر دو دن پہلے مراسلہ لکھا تھا، جس میں قرآن کے ابتدائی تراجم کی تاریخ لکھی تھی، ابتدائی تراجم قرآن مسلمانوں سے بھی پہلے مسیحی پادریوں نے لکھے، جن کا بنیادی مقصد صرف رد اسلام تھا، برصغیر ہندوستان میں اردو زبان کے حوالے سے بھی کچھ ایسا ہی ایک ذکر ملتا ہے۔
ویسے تو اردو زبان میں سب سے پہلے تاریخی اعتبار سے شائع ہونے والا قرآن کا ترجمہ شاہ ولی اللہ کے تیسرے صاحب زادے شاہ رفیع الدین کا مانا جاتا ہے، یہ قرآن کا لفظی ترجمہ تھا، جو مکمل تو سنہء 1788 میں ہو گيا تھا، مگر اس کی پہلی باقاعدہ اشاعت ترجمہ ہونے کے قریب آدھی صدی کے بعد سنہء 1838 میں ممکن ہوئی تھی، اس کی تاخیر کی وجہ ان پر قرآن کا اردو ترجمہ کرنے پر لگائے جانے والے فتاوی تھے۔ لیکن اس دوران حکیم محمد شریف خان دہلوی (جن کا انتقال سنہء 1807 ہوا تھا)، انہوں نے بھی اردو زبان میں قرآن کا ترجمہ کرلیا تھا۔
اگر دیکھا جائے تو اصلا یہ اردو میں پہلا مکمل ترجمہ تھا، مگر یہ کبھی بھی شائع نہ ہوسکا۔ اس کے بعد اردو میں ترجمہ قرآن شاہ عبد القادر دہلوی کا "موضح قرآن" تھا، جو سنہء 1790 میں شائع ہوا، اور یہ ایک عرصے تک برصغیر ہندوستان میں اردو زبان کے سمجھنے والوں کے لئے سب سے زیادہ معروف قرآن کا اردو ترجمہ ثابت ہوا۔ اس کے بعد تو سر سید احمد خان، ڈپٹی نذیر، مرزا حیرت دہلوی، شیخ الہند محمود الحسن، احمد رضا خان بریلوی، اشرف علی تھانوی، سید ابوالاعلی مودودی وغیرہ سمیت کئی افراد کے اردو میں قرآنی تراجم کافی مقبول رہے۔
لیکن یہاں بھی ایک عجیب معاملہ یہ رہا کہ جیسے یورپ میں اسلام کی آمد کے بعد مسیحی پادریوں نے مذہب اسلام کے مقابل اپنے مذہبی ابلاغ کے لئے قرآن کی تحریف شدہ تراجم لکھے، اسی طرح برصغیر میں انگریزوں نے داخلے کے بعد خصوصا سنہء 1857 کے بعد مقامی مسلمانوں پر انگریزوں نے سیاسی، ثقافتی، سماجی اور مذہبی طور پر حملہ کیا۔ مستشرقین اور مشنریوں کے بہت سے گروہوں نے مسلمانوں کے درمیان مضبوط رشتے کو متزلزل کرنے کے لیے اسلام کو اپنا ہدف بنایا۔
مسیحی مشنریوں نے جہاں انتظامی معاملات میں دلچسپی لی، ہسپتال و دوسرے رفاحی ادارے بنائے، وہیں پر مسیحی تبلیغ کا انتظام بھی کیا، مسیحی مشنریوں کو اس میں خاطر خواہ کامیابی بھی ہوئی، کیونکہ برصغیر کے کلچر میں طبقاتی نظام کا بہت عمل دخل تھا، مسیحی مشنریوں نے کمزور معاشی اور کم ذات کے طبقات پر خصوصی محنت کی، اور انہیں مقامی مذاہب جیسے ہندو ازم اور اسلام سے عیسائیت کی طرف راغب کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ اسی کوشش میں انہیں برصغیر سے عماد الدین لاہز میسر آگئے، عماد الدین لاہز بھی مشنریوں کے جال کا شکار ہو کر عیسائیت اختیار کر گئے، جنوبی ایشیا میں سب سے معروف لوگوں میں عماد الدین نے سب سے پہلے مذہب تبدیل کیا اور بعد میں عماد الدین پادری کے نام سے ہندوستان کی مسیحی تبلیغ میں ایک بڑے نام سے معروف بھی ہوئے۔
عماد الدین لاہز ایک مذہبی مسلم خاندان سے تعلق رکھتے تھے، یہ اپنے خاندان میں باقاعدہ علما میں سے چوتھی نسل تھی، لاہز خاندان کا تعلق پانی پت سے تھا، جو آج کل ہندوستان کی ریاست ہریانہ میں ہے۔ پانی پت کے مسلمان اسلام کے عقیدے میں پرجوش ہونے کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے، عماد الدین لاہز کے والد محمد سراج الدین، دادا اور پردادا سبھی مولوی رہ چکے تھے، عمادالدین کا دعوی تھا کہ وہ اپنی تیس پشتوں کے نام گنوا سکتے ہیں، جو سب مسلمان تھے، اس نے اپنا شجرہ نسب فارسی میں لکھا ہوا تھا اور وہ مشہور صوفی قطب جمال سے اپنی نسبت بتاتے تھے، جن کے مقبرے کی آج بھی ہانسی، ہریانہ، ہندوستان میں تعظیم کی جاتی ہے۔
(جب کہ ان پر کی جانے والی تنقید میں کچھ مسلم علماء نے ان کا نسب تیلی لکھا ہے)، خود عماد الدین لاہز مذہبی مسلمان گھرانے سے تعلق کی وجہ سے چھوٹی عمر میں ہی عالم دین بن گئے، اور اسلامی فقہ سے بھی خوب واقف تھے، عماد الدین نے عالم بننے کے بعد اپنی پوری طاقت سے عیسائی مشنریوں کی مخالفت کی، اور آگرہ کی شاہی مسجد کا امام مقرر کیا گیا، جو اس کی شاندار عمارت "تاج محل" کے لیے مشہور شہر کہلاتی تھی، وہ عیسائیت کا خود ساختہ دشمن تھا، عماد الدین لاہز ایک قابل ادیب بھی تھے ان کی کئی کتابیں انہوں نے اپنے مسلمانی ادوار میں لکھیں۔
حتی کہ سنہء 1854 میں آگرہ میں مولانا سید آل حسن مہانی کی رد عیسائیت پر لکھی گئی "کتاب الاستفسار" پر جرمن کرسچن پادری کارل گوٹلیب فانڈر پر مشتمل ایک وسیع پیمانے پر مشہور مسلم عیسائی بحث میں مسلم فریق کی نمائندگی کرنے کے لیے محمد وزیر خان کے ساتھ رحمت اللہ کیرانوی کی مدد کی۔ اس مباحثے میں شرکت کے دوران عماد الدین اور ان کے قریبی دوست مولوی صفدر علی جو کہ مسلمانوں کی طرف سے اس مناظرے میں شریک تھے وہ خود پادری کارل گوٹلیب فانڈر کے دلائل سے اس قدر متاثر ہوئے کہ عماد الدین لابز نے اپنے دوست مولوی صفدر علی کے ساتھ 29 اپریل سنہء 1866 میں عیسائیت قبول کرلی، بعد میں عماد الدین نے انہی دلائل کو جمع کرکے عیسائیت کے حق میں ایک کتاب "میزان الحق" عیسائیت کے حق میں بھی لکھی۔ عماد الدین باقاعدہ پھر عیسائیت میں پادری بنے، اور اپنے اسلام سے مسیحیت کے سفر کے روداد کے لئے دو کتابیں عماد الدین "خداوند مسیح کے نورتن" اور "واقعات عمادیہ" میں لکھے۔ اس کی عیسائیت میں تبدیلی دور رس اثرات کے ساتھ ایک عہد ساز واقعہ تھا۔ اپنی تبدیلی کے بعد وہ اسلام کے خلاف عیسائیت کا سب سے مضبوط محافظ بن گیا۔
پادری عماد الدین لاہز نے کم از کم 53 کتابیں اور کتابچے لکھے۔ عماد الدین نے بطور پادری قرآن کا اردو "ترجمہ القرآن با اردو زباں" کے نام سے کیا، متعدد بائبل کی تفسیریں بھی لکھیں، اسلام، اسلامی تاریخ اور عقائد کے بارے میں عماد الدین لاہز کی تحریریں، اس کے قرآن کا اردو میں ترجمہ، بائبل کی تفسیروں کے علاوہ، اس نے احمدیوں کے بانی مرزا غلام احمد اور اس وقت سر سید احمد خان کے کاموں کی تردید بھی لکھی۔
اس کے عہد میں آر سید احمد خان، مرزا غلام احمد قادیانی، مولانا امرتسری اور تقریبا تمام ہی مکتبہ فکرکے کئی معروف علماء سے اس کے تحریری کتابوں کے جواب الجواب مکالمے چلتے رہے اور چھپتے رہے، عماد الدین لاہز نے جس شدت سے اسلام میں رہتے ہوئے عیسائیت پر تنقید کی، اسلام سے عیسائیت میں جانے کے بعد یہی کام انہوں نے رد اسلام پر کیا۔
سنہء 1900 میں جب عماد الدین کی وفات ہوئی تو وہ معافی نامہ، مسلمانوں کے ساتھ مباحثے، اور الہیات کے بہت سے کاموں کے لیے پوری دنیا میں سب سے مشہور برصغیری پادری بن چکا تھا۔ انتقال کے وقت عماد الدین لاہز امرتسر کے سب سے بڑے چرچ کے مرکزی راہب تھے۔ عماد الدین لابز کو پوری مغربی عیسائی دنیا میں سراہا گیا، اس کی آپ بیتی "A Mohammadan Brought To Christ" بے تحاشا بکنے والی کتاب بن گئی۔
ایسا نہیں تھا کہ رد اسلام میں قرآن کے تراجم کی دوڑ میں فقط عماد الدین لاہز واحد شخص تھے۔ اس کے علاوہ پادری احمد شاہ نے قرآن کا ترجمہ "ترجمۃ القرآن" کے نام سے کیا تھا، جو بمیر پورہ میں مشنری ابلاغ کے طور پر سنہء 1915 میں شائع ہوا تھا، 507 صفحات پر مشتمل پادری احمد شاہ کا یہ ترجمہ برصغیر میں دوسرا مسیحی ترجمہ قران تھا۔ اس کے علاوہ پادری صاحب علی بخش کا "تفسیر قرآن" کے نام سے اردو میں 375 صفحات پر مشتمل تھا، جو مرکنٹائل پریس، لاہور سے سنہء 1935 میں شائع ہوا۔ یہ شان نزول اور محبت نامہ قدیم اور جدید کی روشنی میں مکی سورتوں کی تفسیر ہے۔ جس کا سب سے اہم پہلو سورتوں اور آیات کی زمانی تقسیم اور قرآن کی تشریح و تفسیر میں کتب سماوی کو نظر انداز کرکے احادیث نبوی کی الجھا کر پیش کیا گیا تھا۔
ایک اور قرآنی اردو ترجمہ پادری سلطان محمد پال نے "سلطان التفاسیر" کے نام سے کیا، یہ ترجمہ 184 صفحات پر مشتمل تھا جو پبلشر ایم کے خان مہاں سنگھ، لاہور سے پبلش ہوا تھا، اس ترجمے کی سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کے چھٹے رکوع تک کی یہ تفسیر پادری سلطان محمد پال کی ادارت میں جاری مسیحی جریدہ " المائدہ" (لاہور) میں بالاقساط سنہء 1932 تو سنہء 1935 کے دوران چھپی، جسے بعد ازاں مجلد شائع کیا گیا، بعد ازاں دوسرے مسیحی جریدہ "النجات"(لاہور) میں اس تفسیری سلسلے کو آگے بڑھایا گیا، اس کی کتابی شکل میں اشاعت نہیں ہو سکی۔
تفسیری اسلوب یہ اپنایا گیا ہے کہ پہلے قرآنی متن اور اس پادری سلطان پال کا کیا گیا اردو ترجمہ دیا گیا ہے پھر لفظاً تفسیری پہلوؤں پر بسیط گفتگو کی گئی، پادری سلطان پال کی اس طرز تفسیر کے سوا کسی اور مسیحی اہل قلم نے تفسیر قرآن پر اس سے پہلے اس طرح قلم نہیں اٹھایا، یہ بات بھی خصوصی طور پر قابل ذکر ہے کہ مسلم علماء کی طرف سے مولانا ثناء اللہ امرتسری نے اس تفسیر کا جواب "برہان التفاسیر["کے نام سے دیا تھا۔ دیگر ایسی کسی تفسیر کو قابل التفات خیال نہیں کیا گیا تھا۔
ایک اہم بات برصغیر کے اعتبار سے کہ برصغیر میں سب سے زیادہ مرکزی آبادی کے مذاہب ہندو اور مسلمان رہے، یوں تاریخی طور پر مسلمانوں کے بڑے مذہبی پڑوسی ہندو ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ برطانوی استعمار سے قبل آبادی کے لحاظ سے اکثریتی ہندو فریق کی طرف سے سیاسی رقابت کی باوجود غالب مسلم فریق کے ساتھ علمی و مذہبی مناقشہ کی روایت بہت محدود تھی۔ برصغیر میں انگریز عہد میں مسلم مسیحی علمی مناقشہ کا اثر ہندو مسلم مناقشہ پر بھی پڑا اور اس کا رنگ ماقبل سے مختلف نظر آنے لگا۔ مسیحی مشنریوں کی آمد کے بعد برصغیر میں پہلا قرآنی ترجمہ عیسائیوں کی جانب سے رد اسلام میں لکھا گیا تب اس کے بعد یہی معاملہ ہندوؤں کی جانب سے بھی شروع ہہوئے تھے۔
نوٹ:
1- یہ تحریر خصوصا پچھلے مراسلے کے پس منظر پر ہی لکھی گئی ہے، یہاں بھی مقصود یہی تھا کہ عیسائی مشنریوں کی برصغیر آمد کے بعد ہی قرآن کے ترجمے کو بطور رد اسلام کے طور پر لکھا گیا۔ کیونکہ جب پادری عمادالدین کی تبدیلی مذہب عیسائی کے بعد اس کی کتاب "تلخیص الاحادیث یا تاریخ محمدی" جو سنہء 1871 میں شائع ہوئی تھی، اس کے متعلق امداد صابری صاحب اپنی کتاب (فرنگیوں کا جال، صفحہ 90) میں لکھتے ہیں کہ "یہ گندی اور ناپاک کتاب جس میں حضورﷺ کی سوانح عمری انتہائی شرمناک ذہنیت کے ساتھ ناقابل اعتبار لٹریچر کی بنیاد پر لکھی گئی ہے"۔
پادری عماد الدین کا اسلوب روایتی مناظرے و لباہلے والا یہ تھا، جس میں فریقین ایک دوسرے کے چیلنج کرتے ہیں، اکساتے ہیں، اس دوسری کی تکذیب کرتے ہیں، اس کی وجہ سے اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں۔
صرف یہی نہیں کہ صرف عماد الدین لاہز نے تبدیلی مذہب کے بعد تنقیدی کتب و مراسلے لکھے، بلکہ اسی عہد میں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کی جانب سے بھی عماد الدین کی کتب و فکرکے خلاف رد عیسائیت پر ایک طویل کام موجود ہے۔ سنہء 1854 میں جرمنی کے پادریوں کے خلاف مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے جو مباحث کئے، انہوں نے ہی ایک کتاب بعد میں رد عیسائیت پر "اظہار الحق" کے نام سے لکھی، جس کا ترجمہ مفتی تقی عثمانی نے "بائبل سے قرآن تک" کے نام سے کیا ہے۔
2- چونکہ یہاں صرف تراجم کی تاریخ کا ایک مخصوص پس منظر لکھنا تھا، جو شائد بہت کم لوگ جانتے ہیں، ورنہ عماد لدین لابز یا دوسرے مقامی مسیحی پادری زیادہ تر جنہوں نے مذہب تبدیل کیا تھا ان کی کتب یا ان کا رد ایک بالکل الگ موضوع ہے۔ جو میرا فکری میدان بھی نہیں ہے۔