Bamia Mujaffa
بامية مجففة
چند سال سے میں یہ خشک بھنڈیاں تسبیح کی طرح پروہی ہوئی یہاں پر دیکھتا ہوں، جنہیں خشک کرکے سردیوں یا خزاں کے موسم میں صرف مخصوص سبزی یا پھلوں کے مہنگے اسٹورز میں دیکھا ہے، ان کی قیمت بھی حیرت انگیز طور پر بہت زیادہ ہوتی ہے۔
بھنڈی کو عربی میں"بامية" اور انگریزی میں Okra، جو اصلا یونانی سبزی ہے، ںھنڈی کو تاریخی طور یونانی اور رومی دور سے جانا جاسکتا ہے، کیونکہ یونانی و رومن مندروں پر اس کا ذکر کچھ نوشتہ جات بھی موجود ہے، مورخین کا کہنا ہے کہ عرب میں یہ سب سے پہلے قدیم مصر می اس کی کاشت یونانی دور میں آج سے قریب 2000 سال قبل ہوئی تھی۔
تاہم اس کی اصل ابتدا اور پھیلاؤ براعظم افریقہ میں ہوا، جس کی وجہ گرم علاقوں میں اس کے اگنا ہے، اس بارے میں ایک کتاب The whole Okra کے مطابق یہ ملکہ کلیوپیٹرا کا پسندیدہ کھانا تھا، جو مصر پر حکمرانی کرنے والے مقدونیائی خاندان کی آخری ملکہ تھی، بھنڈی کی اصل ابتداء مصر سے نہیں بلکہ دو دیگر ممالک یعنی ایشیا میں ہندوستان اور افریقہ میں ایتھوپیا سے ہوئی، جہاں سے اس کی کاشت ان دونوں براعظموں کے کئی ممالک تک پھیل گئی۔
مسلمانوں کے اندلس پر قبضہ کرنے کے بعد یورپ پہلی بار بھنڈی سے متعارف ہوا، لیکن بھنڈی کے لیس دار مادے کی وجہ سے اسے زیادہ شہرت نہیں ملی۔ بھنڈیچکی امیرکا آمد سترہویں صدی میں غلاموں کی تجارت کے ذریعے ہوئی اور یہ امریکہ اور کیریبین میں پہنچی، آج جنوبی امریکہ میں بھنڈی کی کئی مقامی اقسام ہیں امریکی ابتداء میں بھنڈیوں سے اچار بناتے تھے، وقت کے ساتھ ان میں کچھ تبدیلیاں آئیں، اب اسے امریکا میں بھی معمول کے مطابق ساسز کے ساتھ پکایا جاتا ہے۔
بھنڈی کی ابتداء کا سفر افریقہ سے ہو کر یونانی و رومن ثقافتوں سے شروع تو ہوا لیکن یہ اپنی شکل و ساخت میں ابتداء میں ایسی نہ تھی، جو شکل اور ذائقہ آج موجود ہے، آج کی شکل اصلا ابتدائی افریقی ماخذ سے بہت دور ہے جو ایک طویل سفر کے بعد ہم تک پہنچی ہے، عرب ممالک میں بھنڈی کی زیادہ پسندیدگی میں مصر اول ممالک میں آتا ہے، جہاں بھنڈی کے پکانے کی مختلف ترکیبوں کے علاوہ مصر میں کئی قدیم روایتی طریقے بھی موجود ہیں جو نسلوں سے انہیں وراثت میں ملی ہیں۔
لیکن یہ پورے عرب میں ایک معروف سبزی ہے، مصر، یمن، لبنان اور شام میں اس کی کاشتکاری زمانہ قدیم سے ہورہی ہے، اسے وہاں کاشت کے موسم میں تو پسند کیا ہی جاتا تھا، مگر موسم کے علاوہ اس کو بڑی تعداد میں خشک کرکے موتیوں کی طرح پرو کر محفوظ کرلیا جاتا تھا، بلکہ مصر تو اس کو پیس کر اس کا آٹا بھی بنالیتے تھے، اور اسے موسم کے علاوہ استعمال کیا جاتا تھا۔
سب سے مزے کی بات ہے کہ آج کل بھی لبنان سے یہ عرب خلیجی ممالک میں تسبیح کے دانے کی صورت پرو کر بھی ایکسپورٹ کی جاتی ہے۔ یہ نہ صرف لبنان، بلکہ شام اور مصری میں بھی قدرے مقبول ہیں، لیکن سب سے مزے کی بات ہے کہ یہ ترکیہ میں انتہائی پسندیدہ سمجھی جاتی ہیں، جب موسم ختم ہوجایے تو یہ وہاں خاصی مہنگی ملتی ہیں، سنہء 2020 میں کرونا کے ایام میں کاشتکاروں نے اسے اس عام دنوں کی طرح جب محفوظ نہ کرسکے تو اس برس اس کی قیمت سونے کے بھاؤ کے مقابل رہی تھی، عام طور پر بھی یہ خشک بھنڈیاں وہاں بہت زیادہ قیمت میں فروخت ہوتی ہیں۔
آن لائن اسٹورز پر بھی ان کی دستیابی خاصی مہنگی ہے۔ میں نے خود تین برس پہلے آخری بار جب دیکھی تو خشک بھنڈی کی پروہی ہوئی تسبیح جس کا وزن بمشکل 300 گرام تھا وہ 140 ریال کی تھی۔ یعنی تین سو گرام بھنڈی 10500 پاکستانی روپے کے قریب قیمت واقعی شدید ترین مہنگا ہونا ہی ہے۔ ترکیہ میں اگر تازہ بھنڈی کی قیمت 40 لیرا فی کلو ہو تو اسے خشک کرنے کے بعد اس کی قیمت 800 سے 1000 لیرا تک پہنچ جاتی ہے۔ لبنان شام اور ترکیہ میں خشک بھنڈیاں بہت پسند کی جاتی ہیں اور ان خشک بھنڈیوں کو پکانے کے بھی الگ الگ طریقے موجود ہیں۔
نوٹ: سعودی عرب میں جو بھنڈی عموماََسالن کے طور پر بنائی جاتی ہے، چاہے وہ بکرے کے گوشت کے ساتھ ہو، مجھے وہ ذائقے کے اعتبار سے بالکل پسند نہیں ہے، کیونکہ بھنڈیوں کا یہاں سالن بنایا جاتا ہے، یہاں مقامی عرب اور مصری و شامی اسے بہت پسند کرتے ہیں شائد اس پکوان کا ذائقہ ہمارے عمومی کھانے جیسا نہیں ہوتا۔
2- یہ پوسٹ صرف خشک کی گئی بھنڈیوں کی بنیاد پر لکھا ہے، چونکہ یہ میرے لئے نئی معلومات تھی، ممکن ہے کہ آپ بھی شائد اس بارے میں زیادہ نہیں جانتے ہونگے۔