Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Ammi Ji

Ammi Ji

امی جی

آج امی جی کی برسی ہے، امی جی کا انتقال 8 برس پہلے 26 تاریخ کی رات کے آخری پہر میں ہوا تھا، اس دن سے آج تک ایک شرمندگی کا بوجھ دل پر ان تمام برسوں میں ایک پہاڑ کی طرح موجود ہے، جب امی جی اپنی بیماری میں اتنی تکلیف میں تھیں تو ان کے انتقال پر میں بالکل غمزدہ نہیں ہوا، اس تکلیف کو دیکھ کر ایک لمحے کے لیے ان کے انتقال کی خبر میرے لیے شاید تھوڑا سا سکون کا باعث تھی۔

امی جی متعدد امراض کا شکار تھیں، شاید 25 برس سے انسولین لے رہی تھیں، ان کا جگر آخری عمر میں کافی حد تک کام کرنا چھوڑ گیا تھا، ان کی صحت ایسی تھی کہ جگر ٹرانسپلانٹ کے لیے ان کا جسم بالکل قابل قبول سپورٹنگ حالت میں نہیں تھا، انتقال سے قریب ڈیڑھ ماہ پہلے سے ہی ان کے پھیپھڑوں میں پانی بھرنا شروع ہوگیا تھا، اس لیے انہیں مسلسل ہسپتال میں ہی رکھا جانے لگا، ملٹیپل ڈیزیز کی وجہ سے ایسا ہسپتال چاہیے تھا، جہاں پر مکمل طور پر مانیٹر ہو سکیں، آغا خان ہسپتال کے پرائیویٹ سیکٹر میں یہی سہولت ملنی تھی۔

ڈیڑھ ماہ تسلسل سے میرا بھائی اور بہن ان کے ساتھ ہسپتال میں تھے، بارہ بارہ کے گھنٹے کی ڈیوٹی پر، آغا خان ہسپتال کے جس ڈیپارٹمنٹ میں ان کو رکھا گیا تھا شاید وہ CCU تھا، میں نے بمشکل اٹھارہ دن کی چھٹی اپروو کروائی تھی، ان 18 دنوں میں میں نے شاید 14 یا 16 گھنٹے ہسپتال میں ہی گزارے تھے، صرف آٹھ گھنٹے کے لیے گھر سونے کے لیے جاتا تھا، ان کی طبیعت اتنی خراب تھی کہ بیڈ پر لیٹنے کی وجہ سے ان کے جسم پر زخم بننے شروع ہو گئے تھے، گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا، ان کا ڈائلیسز سٹارٹ ہو چکا تھا۔

سنہء 2016 میں شاید اس وقت ہسپتال کا ایک دن کا بل ڈیڑھ لاکھ سے لے کر ڈھائی لاکھ کے درمیان (ہر روز کی سروسز کی حساب سے الگ الگ) بنتا تھا، میرے لیے سب سے بڑی اذیت یہ تھی کہ میں امی کے سامنے جب جاتا تھا، تو امی کا چہرہ دیکھ کر، اور وہ اپنے ڈالیسز کی تکلیف کا جب ذکر کرتی تھی مجھ سے برداشت ہی نہیں ہوتا تھا میرا ان کے پاس رکنا محال ہوجاتا تھا۔ اس سب کے باوجود ہسپتال میں رکنے کے ٹائم میں ان کے پاس ان کے سامنے بہت کم جاتا تھا، ان سے بات بھی بہت کم کرتا تھا۔

انتقال سے تین دن پہلے ان کا دل بھی شدید کمزور ہوچکا تھا، اس لیے انہیں کارڈیالوجی کے آئی سی یو میں شفٹ کر دیا گیا تھا، اس وقت ڈاکٹرز نے ہمیں وینٹیلیٹر پر منتقل کرنے کا کہا، جسے میں نے سختی سے ٹھکرا دیا، میرا یہی خیال تھا کہ اتنی تکلیف میں یہ صرف مشینوں سے جسم کو زبردستی زندہ رکھنے کی کوشش کریں گے، میرے لیے ان کی تکلیف دیکھنا ناقابل برداشت تھی، ان کی جان اس وقت ہر لمحے موت و زندگی کے درمیان اتنی ہوئی تھی، یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اپنی ماں سے نہ پیار کرتا، مگر ان کی تکلیف دیکھ کر مجھے یہ لگ رہا تھا کہ وہ اتنی اذیت میں ہیں، صرف سانسیں ہی باقی ہیں، خوراک بھی نالی سے ہی دی جارہی تھی۔

اتنی شدید خراب حالت میں اور کئی مہینوں سے شدید تکلیف میں، پچھلے ڈیڑھ ماہ سے وہ سپتال میں تھیں، کہ جس کروٹ انہیں لٹایا جاتا تھا، وہاں پر ان کے زخم بن جاتے تھے، میں ان کی اس تکلیف، درد، میں مزید زندگی کے جینے کی جدوجہد اور اس شدید تکلیف کو برداشت نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس دن میں رات رکنے کے لیے آغا خان کی پارکنگ میں پہنچا ہی تھا کہ بھائی کا فون آیا، کہ فورا اوپر پہنچو۔ وہاں پہنچ کے جب یہ اطلاع ملی تو میں ساکت ہوگیا، اک لمحے کا سکون محسوس ہوا، کافی لوگ پہنچ چکے تھے، سب رو رہے تھے، سوائے میرے، میں صرف اپنے آنسو پی رہا تھا، کہ آخرکار وہ اس تکلیف سے نجات پا گئیں، جسے وہ کتنے دن سے سہہ رہی تھیں۔

میں شدید دکھ میں تو تھا مگر میں یہ خواہش نہیں کر سکتا تھا کہ ان کی وہ تکلیف جاری رہتی، میں کیسے یہ خواہش کرتا کہ وہ اس تکلیف کو جاری رکھنے کے لئے ہمارے پاس واپس آجائیں؟ میں چاہ کر بھی رو نہیں سکا۔ جیسے سب رو رہے تھے، وہ سب غمزدہ تھے، زندگی کسی کے ہاتھ میں نہیں ہوتی، چاہے ہم کسی سے کتنی محبت کیوں نہ کریں، ویسے ہی میں چاہ کر بھی اپنی امی کی زندگی روک نہیں سکتا تھا، مگر انہیں اتنی اذیت دہ زندگی میں بھی نہیں دیکھ سکتا تھا، ان کی اس تکلیف دہ بیماری میں ہم وہ سب کچھ تو کر رہے تھے، جو ہمارے لیے اس وقت انتہائی ممکن تھا، مگر ان کے انتقال کی خبر نے مجھے اک الگ سا احساس ضرور دیا کہ اچھا ہوا کہ وہ تکلیف سے نکل گئیں۔

مگر اس کے باوجود اس احساس کی کیفیت کبھی کبھی مجھ پر بوجھ بن جاتی ہے، مجھے احساس دلاتی ہے کہ میں کتنی خود غرضاں کیفیت میں تھا، مگر یہ خود غرضی امی جی کو دیکھ کر ہی محسوس ہو رہی تھی، اور انہیں اس تکلیف کا اور مزید حصہ بنتے نہیں دیکھنا چاہتا تھا، میں یہ باتیں اپنے بھائی بہنوں سے نہیں کر سکتا تھا، میں جانتا ہو کہ میری یہ باتوں انہیں دکھ دیں گی۔ وہ تکلیف محسوس کریں گے، وہ کیا سوچیں گے، ہم میں سے ہر شخص یہ مانتا ہے کہ زندگی کتنی "قیمتی" ہے، اور اسے ہر قیمت پر محفوظ کیا جانا چاہیے، اور اس وقت اس زندگی کے قیمتی ہونے کا احساس کس قدر بڑھ جائے گا، جب آپ کو یہ اندازہ ہو کہ وہ آپ کی ماں ہے، لیکن گر وہ اذیت میں ہیں تو آپ کیا سوچیں گے؟ کیا کریں گے؟

بس مجھے اس لمحے یہ اطمینان ہوا کہ ان کی زندگی اس اذیت سے نکل گئی، تسلسل سے ایک شدید تکلیف دہ زندگی، جو موجود تھی تو اذیت کے پہاڑ کے طرح تھی اور جب زندگی چلی گئی، تب بھی ایک نہ ختم ہونے والی اذیت کا سامان بن گئی۔ اس لئے اب زندگی سے پیار کرنا کبھی کبھی بہت مشکل لگتا ہے، خاص طور پر رشتوں میں انسان کس اذیت کا سامنا کرتا ہے، ان احساسات کو لفظوں میں بیان کرنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے، آپ ایک ایسے رشتے سے پیار کرتے ہیں، جو انسانی وجود میں فطرت کی طرف سے ودیعت کر دیا جاتا ہے۔

دنیا میں تخلیق کا احساس ماں کی وجود سے ہی ہوتا ہے، ہر کوئی اپنی ماں سے پیار ہی کرتا ہے۔ مگر پھر جب مرنا ہی ہے تو مرنا ہی ہے، پھر اذیت کے ساتھ مرنا زیادہ تکلیف دہ کیوں رہے؟ کم از کم اذیت تو کم ہوجائے، بس یہ اذیت کم ہونے کی تمنا بھی ہوجھ ہے، اذیت میں زندگی بھی بوجھ ہے، شائد زندگی اور رشتے بھی بوجھ ہیں۔ اس لیے میں غمگین ہوں، دکھ میں ہوں، شرمندگی کے احساس میں بھی ہوں، لیکن جہاں انسان کا اختیار ہی نہیں، وہاں وہ کیا کر سکتا ہے؟

ہاں میں امی جی سے پھر ملنا چاہتا ہوں، کوئی امید ہے کہ شاید مر کر مل جائیں، مگر یقین تو پھر بھی نہیں، موت سے تو نہیں ڈرتا، مگر پھر بھی مرنے کا حوصلہ نہیں، ہاں کبھی کبھار موت کی خواہش کے باوجود اس اذیت سے ڈرتا ہوں، جس سے نجات کے لئے میں نے اپنی ماں کے لئے سوچا تھا، مجھے حوصلے کے لفظوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، اس لئے کوئی بھی معزرت نہ کرے، کوئی تسلی بھی نہ دے، مجھے کسی تسلی کسی دعا سے قرار نہیں ملتا، مجھے معلوم ہے کہ زندگی میں مائیں مرنے کے لئے آتی ہیں۔ ساری زندگی مائیں اولاد کے لیے مرتی رہتی ہیں، اور پھر اپنے وجود کے لیے بھی مر جاتی ہیں۔

Check Also

Dunya Ke Mukhtalif Mumalik Ki Shahkaar Kahawaten

By Noor Hussain Afzal