Taqdeer
تقدیر
میں اپنی شعوری زندگی کے گزرے سالوں میں ہمیشہ لفظ "تقدیر" کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ مگر آج کچھ ایسا ہوا کہ کئی سوالوں کے جواب مل گئے۔ سپیشل بچوں کے والدین فری وقت میں یہ تحریر ضرور پڑھیں۔
میں سپیشل بچوں کی تعلیم و تربیت اور بحالی سے منسلک ہوا تو یہ کھوج اور بھی تیز ہوئی کہ آخر یہ بچے ایسے کیوں ہیں؟ ہم مسلمان تقدیر کی جو تعریف سمجھتے ہیں وہ کچھ یوں ہے کہ تقدیر اللہ تعالیٰ کے اس علم اور فیصلہ کو کہتے ہیں جو اس کائنات اور اس کی تمام مخلوقات کے بارے میں اس کے وجود میں آنے سے پہلے طے کیا جا چکا ہے۔ یعنی سپیشل بچوں کے متعلق عالم ارواح میں ہی فیصلہ ہوگیا تھا کہ انکی عقل و دانش کتنی ہوگی یا جسمانی ساخت کیسی ہوگی۔ پھر انسان اس فیصلے کو ماننے میں تاخیر یا انکار کیوں کرتے ہیں؟ اور چیزوں کو ویسا دیکھنا چاہتے ہیں جیسا وہ ٹھیک سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے پاس علم و سمجھ اور خدا کے رازوں کو سمجھنے کا شعور انتہائی محدود ہے۔
حضرت علیؓ سے کسی شخص نے تقدیر کے بارے میں سوال کیا تو آپؓ نے فرمایا: یہ اندھیری راہ ہے، اس پر مت چلو، اس شخص نے دوبارہ سوال کیا تو فرمایا: گہرا سمندر ہے اس میں مت داخل ہو، اس نے سہ بارہ سوال کیا تو فرمایا: اللہ کا راز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تجھ سے مخفی رکھا ہے، لہٰذا اس کی تفتیش و جستجو میں مت پڑو۔
"و سأل رجل عليّ بن أبي طالب رضي الله عنه فقال: أخبرني عن القدر؟ قال: طريق مظلم لاتسلكه، و أعاد السؤال فقال: بحر عميق لاتلجه، فأعاد السؤال فقال: سرّ الله قد خفي عليك فلاتفتشه"۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (1 / 147)
مدعے پر آتا ہوں۔
پچھلے ماہ ہمارے سکول ایک نابینا بچے کا داخلہ ہوا۔ اس سے پہلے اس بچے کی دو بڑی بہنیں ہمارے پاس پڑھ کر جا چکی ہیں۔ اسکی دو بہنیں ابھی بھی زیر تعلیم ہیں اور یہ اسی گھر سے پانچواں نابینا بچہ ہے۔ پیرنٹ ٹیچر میٹنگ میں اس ماہ ان نابینا بچوں کی والدہ آئی تھیں تو میں نے ان سے کچھ وقت لیا۔ انہوں نے بتایا کہ انکے خاوند بیس سال کی عمر میں نابینا ہوئے تھے۔ جب شادی ہوئی بالکل ٹھیک تھے ایک جینیاتی مرض کے زیر اثر 20 سے 40 سال کی عمر میں بینائی سو فیصد ختم ہوگئی۔
انہوں نے بتایا کہ شادی کے پہلے 10 سالوں میں اللہ نے پانچ بیٹیاں عطا کیں۔ بہت ہی پیاری اور ماشاءاللہ خوبصورت۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ان بیٹیوں کی تربیت ہی کر لیں تو بہت ہے۔ مگر لوگوں اور رشتہ داروں کی باتوں اور مشوروں نے پھر ہمارا ذہن اور تقدیر سے ایمان کمزور کر دیا۔ سب نے یہ کہا کہ صرف ایک بار اور کوشش کر لیں شاید بیٹا ہو جائے جو بہنوں کا بھائی بڑھاپے کا سہارا ہوگا۔ ہماری مالی حالات بہت اچھے نہیں تھے کہ میرے خاوند امام مسجد ہیں۔
ہم نے پھر ایک حمل کا پلان کیا۔ چھٹے ماہ الٹراساؤنڈ میں معلوم ہوا کہ بیٹی ہے تو دل بہت پریشان ہوا کہ میں اپنے خاوند کو بیٹے کی خوشی نہ دے سکی۔ یہ چھٹی بیٹی پیدا ہوئی تو پیدائشی نابینا تھی۔ ہم نے پھر سے حمل پلان کیا اور اگلے پانچ سال میں مزید تین بیٹیاں پیدا ہوگئیں اور تقدیر کا فیصلہ دیکھیں یہ والی تینوں ہی پیدائشی نابینا۔ کیونکہ والد میں جینیاتی مسئلہ تھا تو وہ متاثرہ جین اب مسلسل اولاد میں منتقل ہو رہا تھا۔ آٹھویں بیٹی آپریشن سے پیدا ہوئی اور ڈاکٹر نے مجھے بتائے بغیر میری بچہ دانی بھی نکال دی۔
یہ آخری تینوں بیٹیاں ایک ہی گائنی ڈاکٹر کے پاس پیدا ہوئی تھیں اور انکا یہ کہنا تھا کہ تم بیٹے کی تلاش میں پاگل ہو چکی تھی اگر بچہ دانی نہ نکالتی تو تم مزید آٹھ بچے بھی پیدا کر دیتی یا اپنی جان کی بازی ہار جاتی کہ میرا جسم اب بہت کمزور ہو چکا تھا۔ اور ڈپریشن اتنا شدید کہ کوئی 8 بیٹیوں کی ماں ہی سمجھ سکتی ہے کہ معاشرہ کیسی قابل ترس نظر سے دیکھتا اور بیٹا نہ ہونے کا افسوس کرتا ہے۔
اور جس کی 3 بیٹیاں نابینا ہوں جو شاید کبھی بھی دیکھ نہ سکیں گی۔ اس ماں کی کیا حالت ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے ڈاکٹر سے بہت بدتمیزی کی اور بد دعائیں دیں۔ انہوں نے کہا میرا فرض اپنے مریض کی جان بچانا تھا جو مجھے ٹھیک لگا وہ کر دیا۔ اب تم مجھے چاہے جو مرضی سزا دو میں اپنے ضمیر کی عدالت میں مطمئن ہوں۔ جو تمہاری ذہنی اور جسمانی حالت ہو چکی اگلے حمل میں تم نے زندہ نہیں بچنا تھا۔
میں نے حیران ہو کر پوچھا تو یہ نواں بیٹا کیسے پیدا ہوا؟ یہ بھی تو آپکا ہی بیٹا ہے۔ اس پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئیں۔ اور جب چپ ہوئیں تو بولیں کہ سر ہم نے آٹھ بیٹیوں کے بعد بھی تقدیر کو نہیں مانا۔ میں نے اپنی حاملہ نند سے بات کی کہ اگر اسکے ہاں بیٹا ہوا تو وہ ہم گود لے لیں گے۔ وہ مان گئی۔ پیدائش ہوئی تو بیٹا ہی تھا۔ ہم نے پہلے دن ہی گود لے لیا۔ گھر میں خوشیوں اور جشن کا سماں تھا۔
ہماری آخری بیٹی سے یہ بچہ چھ ماہ چھوٹا تھا تو ہم نے دونوں بچوں کو جڑواں ظاہر کر کے نادرا میں اندراج کروا دیا۔ یعنی میں اسکی ماں بن گئی اور میرے خاوند اسکے والد۔ دو سال تک بچہ بالکل ٹھیک رہا اور پھر اسی خاندانی جینیاتی مرض کی وجہ سے نابینا ہونا شروع ہوا اور اسکی نظر 90 فیصد تک ختم ہوگئی۔ مگر اب کی بار نہ میں روئی نہ میرا خاوند۔ نہ ہمارا دل پریشان ہوا نہ ہمیں خدا سے کوئی شکوہ تھا۔ ہمیں سمجھ آگئی کہ تقدیر میں جو ہمارے لیے لکھا ہے اسے قبول کرنا ہے۔
ہم چاہتے ہیں ہمارا بیٹا ہو اور بینائی والا ہو مگر ہمارا خدا کچھ اور ہی چاہتا ہے اور ہم اس سے کیوں ضد لگائے ہوئے ہیں۔ کیوں بار بار خود کو توڑ رہے ہیں۔ اس بیٹے کی بینائی کے چلے جانے نے ہمیں سکون دیا، اطمینان دیا اور اللہ کی محبت سے ہمارے دلوں کو روشن کر دیا۔ ہمارا تقدیر پر ایمان پختہ ہوا اور ہم نے زندگی کو پہلی بار شادی کے 20 سال بعد جینا شروع کیا۔ ہم سب بہت خوش ہیں۔ کہ یہ سب کچھ اس نے ہمیں اپنے قریب کرنے کو کیا۔
شاید ایسا سب کچھ اس نے لکھا ہوا تھا۔ یا کرب، بےبسی اور درد کی انتہا کو چھونے کے بعد ہی سکون ملنا تھا جو ہمیں اب مل گیا۔ وہ اپنی کہانی سناتی رہیں اور میں نم آنکھوں سے نجانے کسی اور ہی سکون اور اطمینان کی دنیا میں جا چکا تھا۔ جو شاید یہاں سے بہت دور واقع ہے۔ اور ان نابینا بچوں کی ماں اسی دنیا میں اپنی سکونت اختیار کر چکی تھی۔ تصویر میں مجھے گلے ملتا ہوا یہ وہی نابینا بچہ ہے۔ جسکا نیا داخلہ ہوا ہے۔