Sanhe Karte Hain Mehwar Ko Talash
سانحے کرتے ہیں محور کو تلاش
ہمارے دادا جان ہمیں ایک کہانی سنایا کرتے تھے، ایک درد بھری کہانی، دم توڑتی حسرتوں کی کہانی، ایک ایسی کہانی جس کے ایک ایک لفظ سے خون کے قطرے ٹپکتے ہوں۔ وہ کہتے برسوں پہلے کی بات ہے ایک مشرقی پاکستان ہوا کرتا تھا، جو کوئی بھی مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان جاتا تو اُس خطے کے حسن میں کھو کر رہ جاتا، وہ خطہ اس قدر حسین تھا کہ گویا کوئی پریوں کا دیس معلوم ہوتا، وہاں سرِ شام ہولے ہولے چلنے والی بادِ نسیم ایک ہمدرد دوست کی طرح سر گوشیاں کرتی، سر سبز بلند قدوقامت والے درختوں کی ڈالیوں پر دلکش صوت و آہنگ والے طیور بیٹھ کر امن اور محبت کے گیت گاتے اور اگر کوئی سیر کے لیے باغات کا رخ کرتا تو پھلوں سے لدی شاخیں جھک کر سلام پیش کرتیں، انسان کا دل کچھ دیر کے لیے سستانے کو کرتا تو زمین نرم خوشبودار سر سبز قالین بچھا دیتی، گرمی میں سائے کی ضرورت ہو تی تو تناور درخت چھتری تان دیتے۔
پھر یوں ہوا کہ مشرقی پاکستان سے لوٹنے والا ہر مسافر اپنے ساتھ ایک خونچکاں داستان لے کر آنے لگا۔ جس کو جو کوئی بھی سنتا کرب سے تلملا اُٹھتا، کیوں کہ وہ ایک تنا ور درخت تند و تیز آندھیوں کی نذر ہو چکا تھا جس نے موسم کی ہر سختی اپنی جان پر تن تنہا جھیل لی تھی، جس نے موسم گل میں رنگ و بو کی دل آویز چادر اوڑھی اور پت جھڑ کے موسم میں برگ و بار سے محروم بھی ہوا۔
سیاست کا موسم کچھ اس طرح سے حبس اور تعفن زدہ ہوا کہ بوئے گل، گل سے جدا ہوگئی۔ شام کو چلنے والی ٹھنڈی ہوائیں سسکیاں بھرنے لگیں۔ زمین نے سبز قالین سمیٹ کر ہر طرف کانٹے بچھا دئیے۔ باغِ گلستاں میں ہر پھول ہر کلی سے خون کی بو آنے لگی۔ ہرچیز پر اشکوں کا سایہ اُمڈنے لگا، مشرقی پاکستان میں ہولے ہولے نفرتوں اور زیادتیوں کی آگ بھڑکنے لگی۔ آخر کار اغیار کی سازشیں کامیاب ہوئیں اور کچھ گھر کے چراغوں نے بھی اپنا ہی گھر جلا ڈالا۔
اس آگ کو بجھانے کے لئے جو پانی پھینکا گیا اُس نے جلتی پر تیل کا کام کیا، کئی پھولوں کی پتیاں بکھر گئیں، پتے زرد ہو گئے، راکھسش اپنی شیطانیت دکھانے لگے، پھر ایک دن کڑاکے کے کی بجلی ہمارے گلستاں پر آ گری۔ آخری آزمائش کا وقت آپہنچا۔ باغباں اور صیاد اپنے اپنے محاذوں پر ڈٹ گئے، پر جوش پر عزم اعلانات اور دعوے ہوتے رہے، کبھی مغرب سے نوید آتی کہ امداد آنے والی ہے، کبھی شمال اور جنوب سے ہمارے دوستوں کے آنے کا مڑدہ سنایا جاتا، ہم اسی منجدھار میں، انہی اعلانوں اور دعوؤں کی کشتیوں پر سوار تھے کہ ناگہاں سقوطِ ڈھاکہ کی جان لیوا خبر آ گئی۔
آہ لہلہاتے کھیتوں، سر سبز درختوں، گہرے پانیوں، اونچے میناروں کا ڈھاکہ، اغیار کے جور اور احباب کے التفات کا ڈھاکہ جو ہم سے بچھڑ گیا۔
پاکستان کی تاریخ میں سانحہ مشرقی پاکستان ایک ایسے المیے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس نے حب الوطنی سے سرشار ہر پاکستانی کو دُکھ میں مبتلا کر دیا۔ ڈاکٹر نثار ترابی سقوطِ ڈھاکہ کا سیاسی پس منظر پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں "ارضِ وطن کو دولخت کرنے کے حق میں کوئی بھی نہیں تھا جب یہ سانحہ پیش آیا تو لوگ احتجاج کرنے لگے، اُس وقت کے چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر اور صدر جنرل یحییٰ خان کی حکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے، سقوطِ ڈھاکہ سے قومی وحدت اسلامی کے درودیوار لرز اُٹھے، قومی تشخص میں دراڑیں پڑ گئیں۔ حکومت کے غیر دانشمندانہ فیصلے نے قومی تاریخ میں ایک ایسے باب کا اضافہ کیا، جس کا ورق ورق اداسی اور پچھتاوے کی ترجمانی کرتا ہے۔ غیر جمہوری عناصر نے قومی وقار کی شناخت گم کردی اور یوں ملک اپنے ایک لازمی حصے سے محروم ہوگیا۔
جس طرح پہاڑوں کے درمیان لاوا اچانک نہیں پھٹتا، سونامی اچانک نہیں آتے، اُسی طرح سانحے بھی یکا یک ظہور پذیر نہیں ہوتے بلکہ ان کے پیچھے سالوں کی سازشیں ہوتی ہیں، سانحے سال ہا سال پرورش پاتے ہیں۔ ہم لاکھ کوشش کرکے بھی سانحات کو روک نہیں سکتے۔
سانحہ مشرقی پاکستان بھی اچانک نہیں ہوا تھا اس کے پیچھے بھی اغیار کی سالوں کی پلاننگ تھی پاکستان کے قیام کو چونکہ دل سے قبول نہیں کیا گیا تھا اس لیے تقسیم ہند کے ساتھ ہی ہندوؤں نے مخالفت کا با قاعدہ آغاز کر دیا، انہوں نے پاکستان کے وجود کو دل سے قبول نہیں کیااس لیے ہندو ستانی رہنماؤں نے اس نوزائیدہ ملک کے خلاف سازشوں کے جال بننا شروع کر دیے۔ مشرقی پاکستان میں صنعت و تجارت پر ہندو قابض تھے اس لیے انہوں نے پاکستان کے خلاف صوبائی عصبیت کو ہوا دینا شروع کر دی قائد اعظم بھی ہندوؤں کے ناپاک عزائم سے آگاہ ہو چکے تھے۔
رئیس احمد جعفری خطبات قائد اعظم میں لکھتے ہیں "پاکستان کے بد خواہوں نے پاکستانی مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لیے بنگالی اور غیر بنگالی کا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ اس طرح صوبائی عصبیت نے جنم لیا ہے۔ جو پاکستان کی سالمیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ جب تک اس عصبیت کو نکا ل نہیں پھینکا جائیگا آ پ صحیح معنوں میں ایک قوم نہیں بن سکتے"۔ ڈاکٹر صفدر محمود اپنی کتاب "پاکستان کیوں ٹوٹا" میں لکھتے ہیں "کہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے تقسیم کو اس نظریے کے ساتھ قبول کیا تھا کہ پاکستان کی نوزائیدہ ریاست حالات کا مقابلہ نہیں کر سکے گی اورتھوڑیہی عرصے میں دم توڑ جائے گی، جواہر لال نہرو نے کہا کہ پاکستان کی تخلیق ایک عارضی اقدام ہے اور یہ آخر کار متحدہ ہندوستان پر منتخج ہوگی"۔
جوزف کاربل اپنی کتاب "ڈینجر ان کشمیر" میں لکھتے ہیں" جواہر لال نہرو کے مطابق پاکستان ناقابلِ عمل مذہبی نظریے کی حامل قرونِ وسطی کی ایک ریاست ہے ایک وقت ایسا آئے گا کہ بھارت کے ساتھ اس کا الحاق ضروری ہو جائے گا"۔
بھارت نے تقسیم ہند کے وقت ہی پاکستان کو دو لخت کرنے کا خواب دیکھ لیا تھا اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے بریگیڈیئر صدیق سالک اپنی کتاب "میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا میں لکھتے ہیں "ہندوستان کی اکثریت کو پاکستان کا قیام نا پسند تھا۔ اس کے ایک ممتاز لیڈر گاندھی نے ہندوستان کی تقسیم کو مقدس گائے کو دو نیم کرنے کا عمل قرار دیا تھا اور ہندو سبھا کا کہنا تھا کہ ہندوستان ناقابلِ تقسیم ہے اس جو جب تک دوبارہ اکھنڈ نہیں کیا جائیگا یہاں امن و امان قائم نہیں رہ سکتا"۔
اس سانحے کی آبیاری کرنے میں مخالفوں نے ہی نہیں اپنوں نے بھی خوب محنت کی، پہلے سیاست دانوں نے اسمبلی میں ایک دوسرے پر کرسیاں توڑیں، پھر زبان کا مسئلہ کھڑا کیا اور پھر ملک ہی توڑ دیا۔ 23نومبر 1971ء کے دن انڈیا کُھلم کُھلا پاکستان کے خلاف میدانِ جنگ میں اُتر آیا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔ دسمبر 1971 کے ابتدائی دنوں میں مغربی پاکستان اور کشمیر کے محاذ پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ شروع ہو ئی اور آخر کار 16 دسمبر 1971 کو سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوگیا۔ 16 دسمبر 2014ء کو ایک اور سانحہ ہوا۔ سانحہ پشاور جس میں معصوم بے گناہ بچوں کا قتل عام کیا گیا، دشمن نے ایک دفعہ پھر سے ہمیں زخمی کیا اور زخم دینے کے لیے 16 دسمبر کا دن ہی چنا، تاکہ ہم اپنی قومی تاریخ کے سانحے کو بھلا نہ سکیں۔ 1971ء کے سانحے نے دھرتی ماں کو لہولہان کیا اور 2014ء کے سانحے نے کئی ماؤں کی کوکھ اُجاڑ دی۔
جب بھی یہ دن آتا ہے تو لگتا ہے جیسے دنیا کا ہر پھول خوشبو سے تہی دامن ہوگیا ہو، قوس قزح کے سارے رنگ اُڑ گئے ہوں، لفظوں سے مفہوم کے زروائیے سلب کر لیے گئے ہوں، آئینوں کی دمک کہیں کھو گئی ہو، جیسے سارا جہاں دیکھتے دیکھتے موت کی دھند میں کہیں کھو گیا ہو، جیسے سارا شہر ویرانیوں کا لباس اوڑھ لے۔
سانحے کرتے ہیں محور کو تلاش
مرکز کرب و بلا ہو جیسے