Main Insan Dhoondti Rahi
میں انساں ڈھونڈتی رہی
میں اگر اپنے چشمِ تخیل میں دیکھوں تو ہم انسانوں کو ایک ایسی دنیا میں بھیجا گیا تھا، جہاں ہمیں اشرف المخلوقات کا درجہ ملا۔ دوسرے سارے جاندار وں کو چھوڑ کر صرف انسانوں کو عظمت ملی، انسانوں کو سالک، پیشوا بنایا گیا۔ خدا کے بعد ہر چیز کا مالک ضمیر کن فکاں بنایا گیا۔ امن انسان کی فطرت کا خاصا بنایا گیا، اس کو نرم دل، بہت محبت کرنے والا بنا یا گیا، فرشتوں کا انسان کو سجدہ کرنا اس حقیقت کا اظہار تھا کہ انسان فرشتوں سے بھی افضل و اعلی ہے۔ مگر انسان اس عزت اس وقار کو ہضم ہی نہ کر سکا۔ اُسے اپنے سے زیادہ جنگلی درندوں اور بھیڑیوں کا روپ پسند آیا۔
اس حضرت انسان نے خود کو سانپ سے زیادہ زہریلا، اور بھیڑیے کے پنجوں سے زیادہ خونخوار بنا لیا، بہمیت اور خونخواری اس کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا۔ یہ دو پیروں والا جانور ہر وقت شکار کی تلاش میں سرگرداں رہنے لگا، اُس نے اپنے شکاری نوکیلے دانت مسوڑھوں میں چھپا لیے، اپنے خونخوار، نوکیلے پنجوں کو انگلیوں کے پیچھے چھپا لیا، اُس کی آنکھوں میں درندگی رقص کرنے لگی، ایک لمحے کو سوچتی ہوں انسان کی اس حالت کو دیکھ کر فرشتے رب سے سوال تو کرتے ہوں گے!کہ اے قادرِ مطلق جس کو تو نے اپنا نائب بنا کر بھیجا دیکھ اُس نے تو درندوں کا روپ دھارلیا ہے، وہ زاغ و زغن بن کر انسانوں کی لاشوں کو نوچ رہا ہے۔ یہ احسن تقویم کے بلند مقام سے گر کراسفل السافلین کی قعر مذلت میں جا پڑا ہے۔
کہنے کو تو ہم انسانوں کی بستی میں رہتے ہیں، مگر یہ کیسے انسان ہیں جو انسانیت کی ساری حدیں پار کرکے بیٹھے ہیں۔ یہاں جلسہ گاہوں میں پرامن لوگوں کو معصوم بچوں کو نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے بم سے اُڑا دیا جاتا ہے، یہاں قانون کے رکھوالے، عدل کی مسند پر بیٹھے لوگوں کو فیصلہ سنانے والوں کے گھروں میں کم سن معصوم بچی کو بد ترین اور شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، یہاں اُستاد جن کو روحانی ماں باپ کا درجہ حاصل ہے بھیڑیا بن کر اپنی ہی طالب علموں پر جھپٹ پڑتا ہے، حالانکہ یہ سب کرنا انسانوں کا وصف نہیں ہے، انسان تو کسی نور مقدم کا سر تن سے جدا نہیں کرتے، کسی قراۃ العین کے سارے جسم کی ہڈیاں توڑ کر، گلا دبا کر موٹ کے گھاٹ نہیں اُتار دیتے، کسی مائرہ ذوالفقارکوبے دردی سے ابدی نیند نہیں سلاتے، کسی صائمہ رضا کا سفاک قتل نہیں کرتے، کسی خدیجہ صدیقی کے خون سے اپنے ہاتھ نہیں رنگتے، کسی بھی لڑکی کو برہنہ کرکے اُس کو گھنٹوں تشدد کا نشانہ نہیں بناتے، فقط چار ماہ کے بچے اور اُس کی ماں کو تیز دھار آلے سے قتل نہیں کرتے، سر عام موٹر وے پر بچوں کے سامنے ماں کو زیادتی کا نشانہ نہیں بناتے، نوجوان جوڑے کے ہاتھ، سر، پاؤں کاٹ کر برہنہ کرکے نہر میں نہیں پھینک دیتے، انسان زینب جیسی معصوم کلیوں کو نہیں مسلتے، ہنستے کھیلتے معصوم بچوں کو زیادتی کا نشانہ نہیں بناتے، بنتِ حوا کی آبرو ریزی نہیں کرتے، چہروں پر تیزاب نہیں پھنکتے، انسان اپنی بہوؤں کو زندہ نہیں جلاتے، سوتیلا باپ بیٹی کو نہیں نوچتا، سوتیلی ماں بچوں کو کرنٹ لگا کر مار نہیں دیتی، بہن بہن کا قتل نہیں کرتی، بھائی بہنوں کو خون آشام پنجوں سے نہیں جھگڑتے، کہتے ہیں جنگوں کا بھی کوئی قانون ہوتا ہےشیر کو جب تک بھوک نہ لگے وہ شکار پر نہیں جھپٹتا مگر یہاں اب جنگلوں کا سا قانون بھی نافذ نہیں رہا۔
درندے ہمیں دیکھ کر شرماتے ہیں، انسانی عظمت کا اثاثہ اب لٹ چکا، شیطانیت، خیوانیت کا عفریت انسانیت کی لاش پر رقص کناں ہے۔ ہوس پرست، قاتل، خون سےپیاس بجھانے والے انسان نےہر طر ف ضلالتوں کے تحت بچھا دئیے ہیں۔ حضرتِ انسان نے بے شمار غول بنا رکھے ہیں جنہوں نے شیطان کےہاتھ پر بیعت کرکے اس طرح اس کی اطاعت میں اپنے تیئں فنا کر دیا ہےکہ ان کا جواز از سر تاپا پیکر شیطانی اور مجسمہ ابلیسی بن کر رہ گیاہے۔ انسان ایک ایسا ڈھانچہ بن چکا ہے کہ جس میں روح نہیں ہے وہ لاشہ ہے کہ جس میں جان نہیں ہے۔
موجودہ دور بے کسی کا دور ہے۔ اور یہ دنیا شہر ناپرساں بنتی چلی جا رہی ہے۔ جہاں پر چار سو فسادِ آدمیت ہے، جہاں پر قحط پڑا ہے "قحط الرجال "۔ مختار مسعود اپنی کتاب "آوازِ دوست" کے دوسرے طویل مضمون "قحط الرجال "میں لکھتے ہیں۔ "قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے، قحط الرجال میں زندگی۔ مرگ انبوہ کا جشن ہو توقحط، حیات بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال۔ ایک عالم موت کی ناحق زحمت کا دوسرا زندگی کی نا حق تہمت کا۔ ایک سماں حشر کا دوسرا حشرات الارض کا۔ زندگی کے تعاقب میں رہنے والے قحط سے زیادہ قحط الرجال کا غم کھاتے ہیں۔ "انسان ہر گزرتےدن کے ساتھ پستوں میں گرتا ہی چلا جا رہا ہے۔ انسانوں کی بستیاں تو پھیل رہی ہیں۔
آبادی میں دن دوگنا رات چوگنا اضافہ تو ہو رہا ہے مگر انسانیت سکڑتی جا رہی ہے۔ انسانوں کے اندر دل تو دھڑک رہے ہیں مگر دلوں میں انسانیت کے لیے کوئی نرم جذبہ باقی نہیں ہے، احساس سود زیاں موجود نہیں۔ انسانوں کا خون تو سرخ ہے مگر اس میں اب امن اور صلح جوئی کے جذبات نا پید ہو گئے ہیں۔ انسان نے لہو کی بدلیوں، خون کی ندیوں، تڑپتی ہوئی لاشوں کے تودوں پر اپنے سنہری ستونِ عظمت نصب کیے ہوئے ہیں۔ متحرک جسموں کی لگی اس بھیڑ میں میں انساں ڈھونڈتی رہی۔