Kuch To Talba Bhi Hosh Ke Nakhun Len
کچھ تو طلباء بھی ہوش کے ناخن لیں
امام غزالی فرماتے ہیں"وہ خاصہ جس کے ذریعے انسان کو جانوروں سے امتیاز حاصل ہوتا ہے وہ علم ہے، اور انسان تبھی انسان کہلائے گا کہ جس سے اسے شرف و امتیاز حاصل ہے، وہ اس میں موجود ہے۔ " اور یہ ہی حقیقت ہے انسان کا امتیاز علم کی وجہ سے ہی ہے۔ علم ہی انسان اور حیوان میں فرق پیدا کرتا ہے۔
ہماری درسگاہوں میں دی جانے والی تعلیم کا مقصد بھی انسان کی سیرت و کردار سازی کرنا تھا انسان کی شخصیت کو نکھار کر اُسے پوری انسانیت کے لیے مفید اور پرامن بنانا تھا۔ اُستاد کا فرض عین یہ تھا کہ وہ اپنے طالب علموں کے روحانی ماں باپ تھے جو اُن کی تعلیم و تربیت کے ذریعے اُن کی شخصیت اُن کی روح کو نکھارتے، پھر یوں ہوا کہ ہم فتنوں سے بھرے ایک ایسے دور میں داخل ہو گئے جہاں تعلیم کا مقصد صرف ڈگری کا حصول بن گیا۔
اُستاد اپنے فرضِ منصبی سے منہ موڑنے لگے تو تعلیمی ادارے کہیں قتل کی آماجگاہیں بن گئیں، تو کہیں انہیں تعلیمی اداروں میں حوا کی بیٹی کی عصمت نیلام ہونے لگی، کہیں تو یہ تعلیمی ادارے فحاشی کے اڈے بنے تو کہیں ان میں نشہ آور ادویات فروخت ہونے لگیں، طلباء جو ان تعلیمی اداروں میں تعلیم کے حصول کے لیے جاتے ہیں نشے میں دھت کسی کونے میں بیٹھ کر اپنی دنیا بسائے رکھتے ہیں۔
حال ہی میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ایک ماہ کے اندر یہ دوسرا واقعہ پیش آیا ہے۔ پہلے واقعے میں یونیورسٹی کے خزانچی کو منشیات رکھنے اور فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور دوسرا واقعہ ابھی کچھ روز قبل ہی پیش آیا جس میں یونیورسٹی کے چیف سیکورٹی آفیسر سے ناصرف بھاری تعداد میں منشیات برآمد ہوئیں بلکہ اس کے موبائل سے طالبات کی نازیبا ویڈیوز بھی برآمد ہوئیں جو طالبات کو بلیک میل کرنے کے لیے بنوائی گئی تھیں۔
یونیورسٹیز کے اساتذہ ایچ او ڈی طالبات کو نشے کا عادی بنا کر ان سے جنسی استحصال کرتے ہیں۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہو جاتی یہ صرف اسلامیہ یونیورسٹی میں ہونے والا پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے کامسیٹ یونیورسٹی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں کچھ اساتذہ اخلاقی پسماندگی کے گڑھے میں گرے اور پیپر میں طلباء سے بہن بھائی کے رشتے کے غیر اخلاقی سوال پوچھنے لگے، گومل یونیورسٹی، بلوچستان یونیورسٹی، بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی، قائداعظم یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی، مردان یونیورسٹی یہ وہ ہمارے بڑے بڑے تعلیمی ادارے ہیں جہاں جنسی ہراسگی اور طلباء میں منشیات کی فروخت کے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔
طلباء و طالبات کو نشے کی لت لگانا، ان کی فحش ویڈیوز بنانا، ان کو جنسی طور پر ہراساں کرنا بلیک میل کرنا کون کر رہا ہے یہ سب؟ موجودہ دور کے انسانیت کے درجے سے گرے، شیطانی جوگہ پہنے کچھ اُستاد کر رہے ہیں ایک پوری نوجوان نسل کو تباہ و برباد۔ ایک پورا مافیا ہے یہ جس نے تعلیمی اداروں کو نشے کے اور فحاشی کے اڈے بنا دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے منشیات کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 70 لاکھ سے زائد افراد نشے کی لت میں مبتلا ہیں جس میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نوجوان لڑکیاں لڑکے بھی شامل ہیں۔
وہ اُستاد جس کا کام عزتوں کی حفاظت کرنا تھا خود ہی درندہ بنا تازے گوشت کو بھنبھوڑ رہا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ وہ اُستاد جس نے نسلیں سنوارنا تھیں ہوس کا پجاری بنا بیٹھا ہے۔ طلباء کو نشے کا عادی بنا کر خاندان کے خاندان تباہ کر رہا ہے۔ ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں جب تک سالانہ امتحانی نظام رائج تھا ایسے شرمناک واقعات سامنے نہیں آتے تھے جیسے ہی یونیورسٹیوں میں سمسٹر سسٹم رائج ہوا۔ اس نے یونیورسٹیوں میں آفیسرز، اساتذہ، ایچ او ڈیز کو کہیں فرعون بنایا تو کہیں درندہ بنا دیا۔
حالانکہ ماہرینِ تعلیم کا کہنا ہے کہ سمسٹر سسٹم پاکستان کے طلباء کے لیے بہترین ہے کیونکہ پاکستان میں رائج لارڈ میکالے کا نظام تعلیم جس کا مقصد طلباء کو نمبروں کی دوڑ میں لگانا ہے اور اگر استاد اپنے پیشے سے مخلص ہوں تو سمسٹر سسٹم میں طلباء آسانی سے زیادہ نمبر لے سکتے ہیں کیونکہ طلباء کو مفت کے نمبر تو سمسٹر کا سیشنل ورک دے جاتا ہے اس کے علاوہ مڈ ٹرم اور فائیل کا پیپر بھی آدھا معروضی پر مشتمل ہوتا ہے۔
مگر طلباء کو نمبر دینے کا مکمل اختیار اُستاد کے پاس ہوتا ہے اور موجودہ صورتِ حال میں یونیورسٹیوں میں بہت کم اُستاد اپنے پیشے سے مخلص نظر آتے ہیں زیادہ تر اُستاد نمبروں کی آڑ میں طلباء و طالبات کا کہیں تو جنسی استحصال کر رہے ہیں اور کہیں نفسیاتی استحصال کر رہے ہیں۔ اس جنسی اور نفسیاتی استحصال کو روکنے کا رآمد طریقہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں سے سمسٹر سسٹم ختم کیا جائے، طلباء کے پیپر چیکنگ کے لیے یونیورسٹی سے باہر بھیجیں جائیں طلباء کے پیپر وہ استاد چیک کریں جن کی طلباء کے نام تک سے واقفیت نا ہو۔
یہاں تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی نہایت توجہ طلب ہے۔ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم لڑکیاں لڑکے خاصے میچور ہوتے ہیں اُن پر گھر میں ماں باپ اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتے تو یونیورسٹی کے اُستاد کیا زبردستی کریں گے جب تک کہ طلباء کی اپنی مرضی اندر شامل نا ہو۔ اُساتذہ کا گھناؤنہ کردار اپنی جگہ مگر کیا ایک مضبوط کردار کی لڑکی صرف نمبروں کے حصول کے لیے اپنے استاد کی بلیک میلنگ میں آ جاتی ہے؟
کیا وہ سمسٹر پاس کرنے کی خاطر بے آبرو ہو جاتی ہے؟ ایسا ہر گز نہیں ہوتا جب تک طلباء کی اپنی مرضی اندر شامل نا ہو اور تصویر کا یہ رخ نہایت رنجیدہ کر دینے والا اور شرمندہ کر دینے والا ہے۔ موجودہ دور میں والدین اپنے یونیورسٹی پڑھنے والے اور ہاسٹل میں رہنے والے جوان بیٹوں اور بیٹیوں کی طرف سے آنکھیں موند کر بیٹھے ہیں والدین اُن کی سرگرمیوں کی خبر کیوں نہیں رکھتے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل آسانی سے بے راہ روی کی شکار ہو رہی ہے۔
کچھ معصوم لڑکیاں شیطانی اُستاد کے ڈرانے دھمکانے سے ڈر گئیں تو کیا اتنی بڑی تعداد میں لڑکیاں معصوم اور بے گناہ ہیں جو اُستاد کے جھانسے میں آ گئیں؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے طلباء کو ہوش و خرد سے بیگانہ ہونے سے پہلے اپنے ابلیسی کردار کے حامل ایچ او ڈی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ بربادی پوری ایک نسل کی ہے۔ طلباء کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے کہ کسی صورت بھی ڈگری عزت سے اہم نہیں ہے عزت کی حفاظت کرنا تو جان پر کھیل کر بھی لازم ہے پھر کاغذ کے اُس ایک ٹکڑے کے لیے کہ جس کی اُس ملکِ خداداد میں کوئی ویلیو نہیں کسی درندے کے سامنے ہار مان لینا کردار کی مضبوطی ہرگز نہیں ہے۔
طلباء و طالبات کو چاہیے کہ جب بھی اُن کا کوئی بھی اُستاد اُن کو بلیک میل کرے تو اپنے حق کے لیے آواز خود اُٹھائیں موجودہ دور میں سوشل میڈیا سب سے مضبوط پلیٹ فارم ہے اس کا سہارا لے کر استادوں کے مافیا کو بے نقاب کریں۔ یقیناً اُن کی آواز سن لی جائے گی کیونکہ ابھی اتنی بھی اندھیر نگری نہیں کہ اُس میں اچھائی دیواروں سے سر پٹکتی پھرے ابھی بھی مظلوموں کی آواز پر لبیک کہا جاتا ہے انصاف ابھی بھی مل جاتا ہے بس ذرا سی ہمت، محنت اور اپنی نیت صاف رکھنے کی ضرورت ہے۔