Bare Hum Bewafa Nikle
بڑے ہم بے وفا نکلے
10 نبوی میں ابو طالب کی وفات ہوگئی۔ پھر اس کے چند دن پعد آپ ﷺ کی ہمدرد اور غمگسار بیوی خدیجۃ الکبری بھی وفات پا گئیں۔ چند دنوں کے وقفے سے یہ دونوں سہارے آپ سے چھن گئے چنانچہ آپ پر غم و الم ٹوٹ پڑا۔ ابو طالب کی وفات کے بعد مشرکین مکہ کے حوصلے بڑھ گئے وہ مسلمانوں پر مزید تشدد کی تجویزیں سوچنے لگے چناچہ ان حالات میں آپ ﷺ نے سوچا کہ اب مکہ سے باہر کسی مقام پر تبلیغ کا مرکز بنانا چاہیے اور اس مقصد کے لیے آپ نے مکہ کے جڑواں شہر طائف کا انتخاب کیا جو کہ ایک زرخیز اور شاداب علاقہ تھا۔ آپ بیس دن کی پیدل مسافت کے بعد طائف پہنچ گئے۔
طائف میں بنو ثقیف آباد تھے اور تین بھائی مسعود، حبیب اور عبدیا لیل اس شہر کے سردار اور روسائے مکہ کے ہمسر تھے اہل مکہ سے تعلقات کی بنا پر انہوں نے اہل مکہ کی ہی روش کو اختیار کیا اور آپ ﷺ کے دعوت نامے کو ٹھکرا دیا۔ آپ سے بڑی بدتمیزی سے پیش آئے اور آپ کو گستاخانہ جواب دینے لگے اس پر آپ نے بڑی بردباری سے انہیں جواب دیا کہ اگر تم مجھے رسول نہیں مانتے تو کم از کم میری راہ میں رکاوٹ نہ ڈالو مجھے تبلیغ کا کام کرنے دو۔ مگر ان بد بختوں نے اپنے غلاموں خادموں اور شہر کے اوباش لڑکوں کو آپ ﷺ کے پیچھے لگا دیا آپ جہاں بھی وعظ کے لیے کھڑے ہوتے وہ آپ کو گالیاں دیتے شور مچاتے پتھر مارتے جب آپ نڈھال ہو جاتے تو یہ غنڈے آپ کو بازؤ سے پکڑ کر اُٹھا دیتے، اور پھر آپ ﷺ کے ٹخنوں پر پتھر مارتے اور تالیاں بجا بجا کر ہنستے۔ خون بے تحاشا بہہ رہا تھا آپ کے جوتے خون سے لتھڑ گئے۔ چناچہ آپ ایک باغ میں جا کر بیٹھ گئے وہ باغ رئیس مکہ عتبہ بن ربیعہ اور اسکے کے بھائی شیبہ کا تھا۔
عتبہ ایک رحم دل انسان تھا اُس نے آپ ﷺ کی یہ حالت دیکھی تو اپنے غلام عداس کے ہاتھ انگوروں کی ایک پلیٹ بجھوا دی۔ آپ نے انگوروں کی طرف ہاتھ بڑھایا اور بسم اللہ پڑھ کر انگور کھانا شروع کیے عداس کہنے لگا، یہ کلمہ یہاں کے لوگ تو کبھی نہیں کہتے۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کون ہو تم تمہارا مذہب کیا ہے؟ وہ بولا میں عیسائی ہوں اور نینوا کا باشندہ ہوں، آپ نے فرمایا گویا تم مرد صالح یونس بن متی کے شہر کے ہو وہ تو میرا بھائی ہے۔ وہ بھی نبی تھا اور میں بھی نبی ہوں۔ غلام نے یہ سنا تو آپ کے ہاتھ چومنے لگا عتبہ یہ ماجرا دیکھ کر کہنے لگا یہ کیا حرکت کر رہے تھے تم، تم نے اپنا مذہب خراب کر لیا ہے۔ عداس نے خواب دیا کہ اس شخص نے مجھے ایک ایسی بات بتائی ہے جو صرف ایک نبی ہی بتا سکتا ہے۔
سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ ﷺ پر اُحد کے دن کے سے بھی کوئی زیادہ سخت دن گزرا ہے تو آپ نے فرمایا سب سے زیادہ سخت دن مجھ پر طائف کا دن گزرا ہے۔ مجھ سے پہاڑوں کے فرشتے نے کہا تھا محمد ﷺ اگر آپ چاہیں تو میں مکہ اور طائف کے پہاڑوں کو ملا کر سب کو چکنا چور کر دوں۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ایسا مت کرو مجھے اُمید ہے ان کی اولاد میں سے اللہ کی عبادت کرنے والے لوگ پیدا ہوں گے۔
لاکھوں کروڑوں درود و سلام آپ ﷺ کی اس بردباری پر اور ہماری بے وفائی تو دیکھیئے وہ پیغمبرِ اعظم اس دنیا کی سب سے زیادہ عظیم الشان ہستی کہ اس کے بعد کبھی کوئی ایسا پیدا نہیں گا وہ جو راتوں کو جاگ سجدوں میں اپنی اُمت کے لیے گڑگڑاتا رہا اور اُمت نے کس قدر سہولت اور آسانی سے اُس کی ساری تعلیمات کو فراموش کر دیا اُس کے سارے احکامات کو پس پشت ڈال کر ہر وہ کام کیا جس آپ ﷺ منع فرما گئے ہم نے انسانیت کا قتل کیا اپنے لوگوں کو غیروں کو تشدد کا نشانہ بنایا، ہم نے جھوٹ دھوکا فریب مکاری عیاشی چالاکی کی روش کو صدیوں سے اپنائے رکھا ہے، ہم نے امن محبت پیار کے درس کو فراموش کیا یہاں تک کہ اب برائی کو برائی نہیں سمجھا جاتا گناہ کو گناہ کوئی نہیں سمجھتا آہ یہ کیسی بے وفائی کر رہے ہیں ہم اُس کے ساتھ جو طائف کی وادی میں کھا کھا کے پتھر ہمارے لیے جو تڑپتا رہا تھا اُسی کی طریقوں کو پیروں سے روندھا ذرا خود بتاؤ یہ کیسی وفا ہے؟