Saturday, 11 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Khansa Saeed/
  4. Aye Sahib e Saif O Qalam

Aye Sahib e Saif O Qalam

اے صاحبِ سیف و قلم

ہزاروں ماہ و سال کے مسلسل تجربوں کے بعد یہ کلیہ قائم کیا گیا ہے کہ علم اور شجاعت، یہ دو ایسے اضداد ہیں جو کبھی ایک ذات میں جمع نہیں ہو سکتے۔ جس ہاتھ میں تلوار ہوتی ہے وہ قلم کو اپنی انگلیوں کی گرفت میں نہیں لا سکتا اور جس ہاتھ میں قلم ہوتا ہے وہ تلوار نہیں اُٹھا سکتا لیکن انسانی تاریخ میں علیؓ کا ہاتھ وہ تنہا اور جامع اضداد ہاتھ ہے، جو تلوار اور قلم دونوں کو مساوی روانی سے چلا سکتا ہے۔ وہ ادیب اور مفکر تھے اور اسی کے دوش بدوش عدیم النظیر سپاہی بھی۔ وہ صفحہ قرطاس پر مجسم کلکِ گوہر بار تھے اور میدان کار زار میں سراپا شمشیر آبدار تھے۔

آپؓ کے اوصاف لڑی کے موتیوں کی طرح باہم مربوط ہیں۔ آپ بہادر تھے اس لیے کہ آپ طاقتور تھے، آپ صداقت شعار تھے، آپ راست باز زاہد تھے۔ حضرت علیؓ کی ذات اختلاف کا ہدف بنی اس لئے کہ صداقت شعاری کسی کے غم و غصہ یا خوشنودی کی پر واہ نہیں کرتی۔ اس مرد صادق کے حق میں سب سے زیادہ صادق دلیل یہ ہے کہ اس کی قابلِ تقلید اعلی خوبیوں اور اوصاف کو لوگوں نے اس کی زندگی میں تسلیم کیا۔ آپ نبی کریم ﷺ کے چیف کمانڈر تھے۔ آپؓ کی بہادری آپ کی شجادت پر لکھنے بیٹھوں تو صفحہ قرطاس آپ کی فتوحات آپ کے اوصاف حمیدہ سے مہک اُٹھے۔ الغرض مختصر اور بہت مختصر یہ کہ۔۔

اے علیؓ، اے حافظِ قرآن، اے جامعِ قرآن، اے اولیا کے سلطان، صداقت کا نشان، جانِ اسلام، خدا کی برہان، اے میدانِ جنگ کے سورما رجز خواں، اے منبرِ امن کے شیریں سخن خطیب، اے ایوانِ عدل کے دیدہ ور قاضی، اے کشورِ سیف و قلم کے خدیو کج کلاہ۔ اے نانِ جویں کی بے پنا ہ طاقت کے مظہر۔ اے زندگی کے معتوب، اے موت کے محبوب، اے اپنی تمام تر رعنائیاں اس دنیا میں بکھیر کر خاموش ہو جانے والے مفکر، آپؓ پر ایمان لانے والے ایمان رکھنے والے آپؓ سے محبت کرنے والے آپ کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں۔

یہ ہے اقبال فیضِ یادِ نامِ مرتضیؓ جس سے

نگاہ فکر میں خلوت سرائے لا مکاں تک ہے

Check Also

Arab Afwaj Bhari Bharkam Ho Kar Bhi Kamyab Kyun Nahi?

By Wusat Ullah Khan