Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khalid Isran
  4. Sipahi Ka Tabadla

Sipahi Ka Tabadla

سپاہی کا تبادلہ

وزیراعلی کمپلینٹ سیل پنجاب کے انچارج بریگیڈئیر علاٶالدین بھکر تشریف لائے اور یہاں انہوں نے ایک ایسی بات کی جو موضوع بحث بن گئی۔ انہوں نے کہا کہ بھکرکے ایک ایم پی اے نے مجھے ایک سپاہی کے تبادلہ کیلئے چٹ تھمائی لیکن میں نے ڈی پی او صاحب کو تبادلہ کیلئے نہیں کہا اور اس کی درخواست رد کردی۔

اگر دیکھا جائے تو عوامی نمائندے اس طرح کی درخواستیں کرتے رہتے ہیں اور یہ ان کا حق بھی ہے کیونکہ عوامی نمائندے بھی اقتدار کی اس دیگ میں حصہ دار ہیں اور کسی کام میں انکی مرضی ومنشا خلاف قانون نہیں ہے۔

یہ بھی سوالیہ نشان ہے کہ کیا جو تبادلہ کسی سیاسی کی مرضی سے ہوگا، وہ میرٹ سے ہٹ کر ہوگا اور جو تبادلہ افسر شاہی اور طاقتوروں کی مرضی سے ہوگا وہ میرٹ پر شمار ہوگا۔ جس طرح "پی کے" فلم میں عامر خان لوگوں کی کمر سے کپڑا ہٹاکر"بھگوان کا ٹھپہ" دیکھتا تھا، کیا اسی طرح افسر شاہی اور طاقتوروں پر بھی بھگوان کا ٹھپہ لگاہوا ہے کہ وہ جو کام کریں گے، وہ صحیح ہوگا اور باقی لوگ غلط ہونگے۔

اگر کسی ایم پی اے نے کوئی چٹ دی بھی تھی تو اس بات کو سر بازار لانا مناسب نہیں تھا۔ لیکن یہ بات کسی اور طرف اشارہ کررہی ہے۔ یہ بات موسموں کی تبدیلی کا پتہ دے رہی ہے۔ ہواٶں کے رخ مکمل تبدیل ہونے کا اشارہ دے رہی ہے۔ سیاسی اقتدار جو پہلے ہی محدود تھا، اب محدود تر ہوتا جارہا ہے۔ اقتدار کے بڑے مراکز پرسیاسی اقتدار کی گرفت پہلے ہی کمزور تھی لیکن اب تو گلی محلے والا اقتدار بھی ہاتھ سے پھسلتا جارہا ہے۔ جو باتیں پہلے پس دیوار تھیں، اب وہ سردیوار آگئی ہیں۔ غیر سیاسی قوتیں اتنی طاقتور ہوگئی ہیں کہ اب وہ پس دیوار حقیقتوں کو دیدہ دلیری سے سردیوار لے آئی ہیں۔

اقتدار بھی ریت میں بند مٹھی کی طرح ہوتا، جب ایک دفعہ ہاتھ سے پھسل جائے تو پھر پھسلتا ہی چلاجاتا ہے۔ جو ایک قدم پچھے ہٹتا ہے، پھر اسے کئی قدم پیچھے جانا پڑتا ہے، یہاں تک کہ وہ دیوار سے لگ جاتا ہے اور آخر میں صرف پھٹا ہوا گریبان ہی ہاتھ میں رہ جاتا ہے۔ اس بات سے لگتا ہے کہ اب اہل سیاست کو "قوال کی ہمنوائی" بھی نصیب نہیں رہی۔ پہلے وہ قوال کے ساتھ سر ملالیتے تھے اور کبھی کبھی اپنی مرضی کا سر بھی اٹھالیتے تھے لیکن ابھی وہ اس ہمنوائی سے بھی محروم ہوکر خود عام تماشائی بن گئے ہیں۔ اہل سیاست پر خزاں پہلے ہی تھی لیکن پھر بھی وہ "خزاں کی پت جھڑ" کی موسیقی سے لطف اندوز ہولیتے تھے لیکن اب تو منظر پر بالکل ہی برف کی سفید چادر چھاگئی ہے۔

یہ بات پورے شہر میں موضوع بحث ہے۔ ہر سیاسی گروپ اپنے مخالف گروپ کے ساتھ اس بات کو منسوب کرکے، اسے تضحیک کا نشانہ بنارہا ہے۔ ہارے ہوئے سیاستدان بھی عوامی نمائندوں کی تضحیک پر بغلیں بجارہے ہیں، یہ سوچے بغیر کہ یہ بات سارے اہل سیاست کیلئے لمحہ فکریہ ہے، ہوسکتا ہے جب انکی باری آئے تو سارا چمن لٹ چکا ہو اور پیچھے کچھ بھی نہ بچا ہو۔ راحت اندوروی نے کیا خوبصورت شعر کہے تھے۔۔

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

یہ اصول فطرت ہے کہ جس چیز کے راستے میں مزاحمت نہ ہو، وہ سب کچھ روندتی چلی جاتی ہے۔ جب اہل سیاست کی مزاحمت ختم ہوئی تو غیر سیاسی قوتیں انہیں روندتے ہوئے آگے بڑھتی چلی گئیں اور ابھی اہل سیاست اپنی ہی سربریدہ لاش پر ماتم کناں ہیں۔ اس میں قصور اہل سیاست کا اپنا ہے۔ جب بازار میں ایک بکنے کو تیار نہ ہوا تو دوسرے نے اپنے آپ کو ارزاں قیمت پر فروخت کردیا۔

اقتدار کا کھیل بہت بے رحم ہے۔ یہاں خیرات نہیں ملتی، سب کو اپنی طاقت کے مطابق حصہ ملتا ہے۔ آپ کا اپنا ساتھی بھی آپ کو مات دینے کے چکر میں ہوتا ہے۔ یہاں توازن بڑا نازک ہوتا ہے۔ بگڑتے توازن کو اگر جلدی ٹھیک نہ کیا جائے تو بندہ منہ کے بل گرتا ہے۔

چیزوں کی حفاظت کرنا آسان ہوتا ہے لیکن اگر کوئی چیز کھوجائے، اسے دوبارہ پانا مشکل ہوتا ہے۔ تاریخ میں حقیقی انتقال اقتدار کبھی پرامن نہیں ہوا۔ اسے ہمیشہ تشدد اور خون کی ضرورت ہوئی ہے۔ صرف مسخروں کی تبدیلی کو آپ انتقال اقتدار نہیں کہہ سکتے۔ اہل سیاست کو اپنا کھویا ہوا اقتدار لینا ہے، تو انہیں بہت جدوجہد کرنی ہوگی۔ قربانیاں دینی ہونگی اور ایک بڑی جنگ لڑنی ہوگی۔ جنگ کیلئے لشکر چاہئے ہوتے ہیں لیکن اہل سیاست کے پاس لشکر نہیں صرف ہجوم ہیں اور ہجوم وقتی ردعمل تو دے سکتے ہیں مگر کوئی بڑی جنگ نہیں لڑسکتے۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan