Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khalid Isran
  4. Nanga Badshah

Nanga Badshah

ننگا بادشاہ

یہ کہانی ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے ادیب "اینڈرسن" کی لکھی ہوئی ہے۔ یہ کہانی شروع ہوتی ہے دو نوسرباز جولاہوں سے۔ دو نوسرباز جولاہے بھائی جن کا کاروبار مندی کا شکار تھا، ایک دن بادشاہ کے دربار میں پہنچے اور عرض کیا "بادشاہ سلامت! ہمارے پاس ایک انتہائی قیمتی لباس ہے۔ اس لباس کی خبر پڑوسی ملک کے بادشاہ تک پہنچی تو اس نے بہت بڑی رقم کے بدلے لباس خریدنے کی پیشکش کی لیکن ہم نے انکار کردیا۔ ہم نے سوچا کہ اس قیمتی لباس پر ہمارے بادشاہ کا حق بنتا ہے۔ ہمارے انکار کے بعد اس نے ہم سے لباس چھیننے کی کوشش کی، لہذا ہم چھپ چھپا کر یہاں تک پہنچ گئے"۔

بادشاہ کا اشتیاق بڑھ گیا۔ وہ بولا "دکھاٶ تو سہی، اس میں کیا خاص بات ہے"۔ دونوں بولے "بادشاہ سلامت! اس کی خوبی یہ ہے کہ یہ صرف عقلمندوں کو نظر آتا ہے اور احمق اس لباس کو نہیں دیکھ سکتے"۔ بادشاہ نے پیکٹ کھول کر دیکھا تو اندر کچھ نہیں تھا۔ اندر کچھ ہوتا تو نظر آتا لیکن اس خوف سے کہ درباری اسے احمق نہ سمجھیں، بادشاہ بولا "واہ واہ! کیا خوبصورت لباس ہے"۔ بادشاہ نے سب درباریوں کو لباس دیکھنے کا کہا۔ درباریوں میں سے کسی کو لباس تو نظر نہ آیا لیکن سب نے اس خوف سے کہ بادشاہ انہیں احمق نہ سمجھے، کہا "واہ! کیا خوبصورت پوشاک ہے۔ بادشاہ سلامت پر خوب جچے گی"۔

بادشاہ نے دونوں جولاہوں کو انعام دے کر رخصت کردیا۔ اگلے دن بادشاہ وہی لباس زیب تن کرکے دربار میں آیا تو"الف ننگا" تھا، لیکن وہ خود کو ملبوس سمجھ رہا تھا۔ خوشامدی درباری ننگے بادشاہ کو دیکھ کر دل ہی دل میں ہنسے ضرور لیکن خوف کی وجہ سے اپنے جذبات ظاہر نہ کیے۔ سب ہی یک زبان بولے "بادشاہ سلامت! آپ نے کیا ہی خوبصورت لباس زیب تن کیاہے۔ یہ آپ پر بہت جچ رہا ہے"۔

اب اسی لباس میں اترا کر بادشاہ مملکت کے دورے کر رہا تھا۔ لوگوں کو بادشاہ الف ننگا نظر آتا تھا لیکن خوف سے یہ بات کہتا کوئی نہیں تھا۔ صرف ایک شخص بادشاہ کو ننگا دیکھ کر ہنسا تھا اور اسے کوڑے مارنے کی سزا دی گئی تھی، اس کے بعد یہ جرات کسی نے نہیں کی تھی۔ جب سے بادشاہ ننگا ہوا تھا، رعایا کا اسے دیکھنے کا اشتیاق بڑھ گیا تھا۔ رعایا ننگے بادشاہ کو دیکھ کر لطف اٹھاتی تھی۔ جب بھی بادشاہ کا جلوس گزرتا، سڑک کے دونوں اطراف لوگوں کا جم غفیر اکٹھا ہوجاتا۔ بادشاہ دل ہی دل سمجھ رہا تھا کہ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ خوشامدی درباری بھی بادشاہ کو مقبولیت زیادہ ہونے کی نوید دے رہے تھے۔ حالانکہ بیروزگاری، غربت اور ظلم وستم بڑھ گیاتھا اور لوگ بادشاہ سے نفرت کرتے تھے لیکن خوف نے انکی زبان کو تالے لگادئے تھے۔

آخر اس خوف کی فضا میں ایک بچے نے جرات کی۔ کیونکہ اس بچے پر ماضی کا کوئی بوجھ نہیں تھا، نہ اس کے ذہن میں حال کے اندیشے تھے اور نہ ہی اسے مستقبل کی فکر تھی۔ وہ بادشاہ اور رعایا کا مفہوم بھی نہیں سمجھتا تھا، اس لئے اس کے ذہن پر بادشاہ کی کوئی ہیبت نہیں تھی۔ اس بچے کی طرح ہر خوف سے آزاد دیوانے ہی کلمہ حق کہہ سکتے ہیں۔

ایک دن بادشاہ کا جلوس گزر رہا تھا کہ اس بچے نے شور مچاکر لوگوں سے کہا "دیکھو! ہمارا بادشاہ ننگا ہے"۔ اس کی جرات نے اور لوگوں کو بھی زبان دے دی اور ہرطرف سے شور اٹھا "ہمارا بادشاہ ننگا ہے"۔

اتنی آوازوں نے خوشامدیوں میں گھرے بادشاہ کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا۔ اس نے پہلی بار اپنی طرف غور سے دیکھا تو اسے اپنا ننگا نظر آگیا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثر بادشاہ ننگے ہوتے ہیں۔ ان کا کردار اور ظلم وجبر واضح ہوتا ہے لیکن انکو مصنوعی لباس خوشامدی درباری اور قلم فروش لکھاری ہی پہناتے ہیں۔ خوشامد اور طاقت کا غرور بادشاہوں کی دیکھنے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کردیتا ہے اور ان کو اپنا ننگاپن نظر نہیں آتا۔

اسی طرح اکثر معاشرے بھی ننگے ہوتے ہیں۔ ان کا لالچ، بے حسی، کرپشن اور لوٹ مار واضح ہوتی ہے۔ ایسے معاشرے منافقت اور مذہبی لبادے اوڑھ کر اپنا ننگا پن دور کرتے ہیں۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan