Wo Youn Aye Janaze Par
وہ یوں آئے جنازے پر
گھر میں میت رکھی تھی۔ وہ نیا کالا جوڑا، کالے میک اپ کے ساتھ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی اشک بار نگاہیں تاسف سے اٹھیں، مگر بن ٹھن کے آنے والی شاید احساس سے بے نیاز تھی۔ پھر یکے بعد دیگرے ایسے کئی چہروں سے لاؤنچ بھر گیا۔ ادھر میت کے عزیزوں کے عزیز کفن دفن کے انتظامات کے ساتھ دیگوں کی تیاری میں بھی مصروف ہو گئے۔ جنازہ جانے کے لئے تیار مردوں کو پہلے فکر تھی کہ جب تک ہم دفنا کر آئیں مہمان عورتوں کو کھلا کر فارغ کر دینا۔ دل میں غم مگر میزبانی کی فکر۔ آنسو پونچھ رہے ہیں دیگیں نمٹا رہے ہیں، کوئی رہ نہ جائے کوئی برا نہ مان جائے۔
فوتگی کا دوسرا دن۔ سوجی آنکھیں، بھاری ہوتا سر مگر بھر پور لوازمات کے ساتھ ناشتے نمٹائے جا رہے ہیں۔ کسی کی خاطر داری میں کمی نہ رہ جائے کوئی ناراض نہ ہو جائے۔ کوئی دور سے آنے والا رشتے دار خفا ہو کر واپس نہ جائے۔ دوپہر کے کھانے تک پھر گھر تعزیت کے لئے آنے والوں سے بھر جاتا ہے۔ بھرپور مہمان نوازی کی جاتی ہے غم سے تھکے ہارے وجود جن کے گھر کا فرد ہمیشہ کے لئے بچھڑ گیا اس سے بے پروا کسی کو گرم بریانی چاہیے تو کسی کو گرم نان۔ کسی کو گرم قورمہ۔
شام کو قرآن خوانی رکھی گئی تو میت کی قریبی رشتے دار عورتیں سینڈوچ، کیک، دہی بھلے لے آئیں۔ گھر والوں نے سموسے اور پیٹیز منگوائے فوتگی والا گھر ٹی پارٹی کا سماں پیش کرنے لگا۔ دل دہائیاں دیتا ہے۔ یہ فوتگی والا گھر ہے، ابھی فوت ہوئے دوسرا دن ہے اور یہاں پارٹی ہو رہی ہے۔ غمگین دل دھاڑے مار مار کر روتا ہے مگر اس ٹی پارٹی کے خلاف ایک لفظ بولنے کی جرات نہیں کہ کوئی روٹھ نہ جائے۔ آنکھ روتی ہے دل تڑپتا ہے مگر ہائے رے یہ دنیا داری۔
کاش کہ ہم "لوگ کیا کہیں گے؟" کی کشمکش سے باہر نکل آئیں اور آسانیاں بانٹنا سیکھیں۔