Sunday, 28 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Khadija Bari/
  4. Tu Hi Sitamgar Tha

Tu Hi Sitamgar Tha

تو ہی ستمگر تھا

میں نہیں جاؤں گی اب واپس، وہاں سب کو کام کی پڑی رہتی ہے ساس کو ملازمہ چاہیے اور میاں کو ہمہ وقت سنوری ہوئی ہیروئن۔

شادی کے چھ مہینے میں یہ آٹھویں بار تھا کہ وہ لڑ کر میکے آ گئی تھی۔ سب کو اس کی خودسر طبیعت کا پتہ تھا سب سمجھا بجھا کر واپس چھوڑ آتے تھے۔ وہ سات بہنوں میں دوسرے نمبر پر تھی۔ بلا کی حسین مگر نخریلی اور پھوہڑ اضافی خوبی فراٹے بھرتی زبان تھی۔ فاخر کی امی نے اسے قرآن خوانی میں دیکھا تو دل ہار گئیں۔ فاخر انہیں لینے آیا تو وہ بھی اسے دیکھ کر بری طرح فریفتہ ہوگیا۔ فاخر اور اس کی ماں بھی خوبرو تھے۔ فاخر کی امی پڑھی لکھی اور سلیقہ مند خاتون تھیں جبکہ فاخر شوخ طبیعت کا مالک تھا۔ اچھا کھاتا پیتا گھرانا تھا۔

اس رشتے میں انکار کی گنجائش نہ تھی سو جھٹ منگنی پٹ بیاہ ہوا۔ اور وہ پیا گھر سدھاری۔ کچھ ہی دنوں میں ساس پر بہو کے گن کھلنے لگے۔ کمرے سے باہر آتی نہ منہ دھلا ہوتا نہ بال بنے ہوتے۔ صحن میں لگے واش بیسن سے پانی کے دو چھینٹے منہ دھونے کے نام پر مار لئے جاتے۔ ساس نے سمجھایا کہ روز تیار ہو کر کمرے سے باہر آیا کرو اچھی بیٹیوں کے یہ طریقے نہیں ہوتے۔ مجھ سے نہیں ہوتے صبح اٹھتے ہی یہ چونچلے سارا دن پڑا ہے ہو جاؤں گی تیار۔

فاخر کی طبیعت بھی اسے دیکھ کر مکدر ہو جاتی وہ چاہتا کبھی تو اس حسن کو سلیقے سے مزین دیکھے مگر وہ سارا دن شلوار اور قمیض اور بے ترتیب حلیے میں پھرتی رہتی۔ نہ اپنی ذات کو سنوارنے کا سلیقہ تھا نہ کمرہ سمیٹنے کا شعور۔ ساس نے دبے لفظوں میں کئی بار سمجھایا کہ بیٹا کام پیارا ہوتا ہے چام پیارا نہیں۔ تو وہ منہ بنا لیتی اور پھر سارا دن کمرے سے نہ نکلتی۔ ساس سکھی ہونے کے بجائے دکھی ہوگئی تھی۔ وہ کچن سنبھالنے کا کہتیں وہ صاف انکار کر دیتی مجھے نہیں آتا یہ سب۔

وہ چاہتی ساس میرے حسن سے مرعوب ہو جائے اور مہارانی کے سنگھاسن پر بٹھا دے۔ ساس کہتی بنا سلیقے کے یہ حسن بلی کا گو ہے جو نہ لیپنے کا ہوتا ہے نہ پوتنے کا۔ رہ گئے فاخر میاں وہ اس کشمکش سے گھبرا کر ماں کا ہاتھ بٹانے کچن کا رخ کرتے تو وہ دل ہی دل میں فاخر کو زنخا کہہ کر دل کی بھڑاس نکالتی۔ فاخر طرح طرح کے کھانے کھانے کا شوقین تھا اور پکانے میں بھی دلچسپی رکھتا تھا گھر سنوارنے سے بھی اسے لگاؤ تھا۔ گھر کی سجاوٹ کے لئے ایک سے ایک چیز لاتا اور خود ترتیب دیتا۔ بلکہ گھر کے کاموں میں ماں کا ہاتھ بھی بٹا دیتا وہ چاہتا اس کی بیوی میں بھی یہ سب گن ہوں مگر ادھر ذوق تھا نا شوق۔

لاک ڈاؤن ہوا تو فاخر کو اچھی خاصی فراغت ملی۔ اس نے اسے خود ڈھنگ، سلیقہ اور کھانا پکانا سکھانے کا سوچا۔ فاخر کہتا آج یہ کپڑے پہن لو اور کپڑوں کے ساتھ میچنگ بتاتا تو وہ بری طرح تپ کر رہ جاتی اور منہ ہی منہ میں اسے زنخا کہتی۔ آج جب فاخر اسے زبردستی کچن میں لے کر گیا اور پیاز کاٹنے کو کہا تو پیاز کی جھل اس کی آنکھوں میں لگی تو وہ بے ساختہ اونچی آواز میں بڑبڑائی۔ "زنخا"۔

مگر فاخر کچھ فاصلے پر تھا اس کی بڑبڑاہٹ سن نہ سکا۔ فاخر کو مہارت سے کوفتے بناتا دیکھ کر اس کا دل جل رہا تھا۔ " شوہر اس کے تصور کے برعکس تھا اس نے تو ایسے شوہر کا تصور کیا تھا جو اس کو بازار کے کھانے کھلائے جو اس کے حسین ہاتھوں کا دیوانہ ہو اسے کام نہ کرنے دے کہ یہ حسین ہاتھ برتن دھونے کے لئے نہیں بنے۔ جو کہے تم ہر حال میں اچھی لگتی ہو تمہارے چہرے پر بکھرے بال سے تمہارا حسن ماند نہیں پڑتا، تم سادہ سے حلیے میں بھی غضب ڈھاتی ہو۔

مگر اس کا شوہر تو خود میک اپ لے کر اس کے سر پر کھڑا ہو کر اسے تیار کرواتا ہے۔ وہ سوچتی جب اس میں عورتوں والے اتنے گن ہیں تو اللہ پاک اس کو عورت ہی بنا دیتے۔ سلیقے سے کوفتے تیار کرتا فاخر اسے سخت زہر لگ رہا تھا۔ پتہ نہیں اس نے کپڑے سینا کیوں نہیں سیکھے۔ ایک دفعہ پھر اس نے منہ ہی منہ زنخا کہہ کر بھڑاس نکالی۔ وہ خود شعور نا آشنا تھی شوہر کے مخلص جذبات کو بھی مٹی میں ملا دیتی تھی۔ بے جوڑ مزاج کے باوجود فاخر نبھا رہا تھا کہ بحرحال وہ اس کے دل کی مکین تھی مگر بیوی کو قدر نہ تھی۔

آج تو حد ہی ہوگئی۔ فاخر کے دوست کے گھر ان کی دعوت تھی۔ فاخر چاہتا وہ نک سک سے تیار ہو۔ وہ خود تیاری میں اس کی مدد کرنے لگا اور جب فاخر نے لپ اسٹک کو درست کر کے مزید گہرا کرنے کو کہا تو بے ساختہ باآواز بلند اس کے منہ سے زنخا نکلا۔ فاخر اپنی جگہ پہ دم بخود رہ گیا۔ "کیا کیا کہا تم نےےے!" صدمے کے مارے اس کے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی، ادھر وہ زنخا کہ کر ذرا نہ جھینپی۔ اور اپنے دل کی خوب بھڑاس نکالتی رہی۔ تم جیسے زنانہ فطرت کے حامل مرد کے ساتھ رہنے سے بہتر ہے کہ میں طلاق لے کر رہ لوں کم از کم ذہنی اذیت سے تو بچوں۔

فاخر کے لئے سب نہایت غیر متوقع تھا۔ اس کی حیرت آسمان کو چھو رہی تھی۔ زنانہ فطرت کے حامل مرد کا طعنہ سن کر اسکا ہاتھ گھوما مگر اس نے خود کو قابو میں رکھا اور زور سے کمرے کا دروازہ بند کر کے باہر آ گیا۔ شریک حیات کے جس خوبصورت تصور کو لے کر وہ آگے بڑھنا چاہتا تھا وہ بری طرح ٹوٹا تھا مگر کوئی لمحہ فیصلہ کن ہوتا ہے وہ دوبارہ کمرے میں آیا اور اس کا ہاتھ گھسیٹتا ہوا گیٹ تک لایا اور گیٹ سے باہر نکال دیا۔

وہ ششدر تھی بہت بار لڑائی ہوئی تھی لیکن فاخر نے کبھی ایسا نہ کیا تھا۔ آج اپنی بدزبانی اور ناقدری کے باعث حسن بے آبرو سا گلی کے باہر باہر کھڑا سسک رہا تھا۔

Check Also

Ghamdi Qarar Dana

By Amirjan Haqqani