Mera Baap Mera Saiban
میرا باپ میرا سائباں
ماں کے قدموں تلے جنت ہے تو باپ اس کا دروازہ ہے۔ سکرول ڈاؤن کرتے ہوئے اس خوبصورت بات پر سدرہ کی انگلیاں رک گئیں۔ آج تو میں نے بابا کے کندھوں کی سیر کرنی ہے۔ لو بھئی ابھی کروا دیتے ہیں۔ اور بابا جان نے کئی چکر لگا ڈالے۔۔
تھوڑی بڑی ہوئی تو ماما کی کاسمیٹک کا حشر نشر کردیا۔ مگر بابا نے کہا کوئی بات نہیں اور آجائیں گی۔۔ پھر اگلے دن ہی اماں کی الگ اور سدرہ کی الگ آجاتی۔ وہ دیواروں پہ لکھتی باپ آڑے آ جاتا۔ کوئی بات نہیں ہو جائیں گی صاف۔ ایک حمایتی آواز اسکو اپنے گھیرے میں لے لیتی۔ ڈسٹنگ کا سامان فریج سے فریج کی چیزیں الماری سے ملتیں۔ مما کو غصہ آتا بابا ڈھال بن جاتے۔
مما نماز پڑھنے بیٹھتی وہ پاؤں پر کاٹتی آنکھوں میں انگلیاں ڈالتی۔ ماما شکائیت کرتیں وہ کہتے کوئی بات نہیں بچی ہی ہے نا، سمجھ جائے گی۔ تھوڑی بڑی ہوئی تو اس کا دل چاہا ماما کی طرح وہ بھی کپڑے دھوئے۔ اسنے ماما سے چپکے سے سب ٹوکری کے کپڑے مشینیں میں ڈال دیے ماما لانڈری میں آئیں تو دیکھ کر دھک رہ گئیں سارے دھلے ہوئے کپڑے مشین کے گندے پانی میں پڑے جھملا رہے تھے۔ ماما کا ضبط جواب دے گیا۔۔ ایسے میں پھر مضبوط بازوؤں نے اسکا دفاع کیا۔۔
پکے ہوئےتیار کھانوں میں ماما کی طرح نمک مرچ ڈالنے کا مزہ ہی اور تھا، ماما کی کوئی ایسی محنت نہیں تھی جس پر اس نے پانی نی پھیرا ہو اور بابا نے اس پر شفقت کا ہاتھ نہ رکھا ہو۔۔ اسکے والد تو دنیا میں بھی اس کے لئے ایسا دروازہ بنے تھے جس سے گزر کر اسنے کامیابیاں حاصل کی تھیں۔۔ اپنے بچپن کی بار ہا سنی یہ کارستانیاں ایک دم اسکے آس پاس آ کھڑی ھوئیں۔۔ اور اسکی آنکھوں کو نم کر گئیں۔ بعض احساسات شدت سے وار کرتے ہیں، اس وقت بھی ایسا ہی ہوا اور آنسو اس کے گالوں سے ڈھلکتے چلے گئے۔۔
اپنی لکھی یہ تحریر پڑھ کر ہمارے دل کا بھی یہی حال ہے، والد صاحب کو فوت ہوئے دس ماہ ہوگئے، مگر صرف تصویر دیکھ کر آنکھوں کی طلب کہاں مٹتی ہےسچ ہے باپ کا کوئی نعم البدل نہیں۔۔ وہ خود تپتی زمین پر ننگے پاؤں کھڑا ھو کر بھی اولاد کی سواری بن جاتا ہے۔
اللہ پاک میرے والد کے درجات بلند فرمائے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، آمین۔