Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khadija Bari
  4. Joint Family

Joint Family

جوائنٹ فیملی

جب میں شادی ہو کر علیحدہ گھر میں آئی تو عورتوں کی اکثریت مجھے دیکھ کر رشک کرتی، مجھے میرے نصیب کے اچھے ہونے سے بار بار آگاہ کیا جاتا۔ پڑوسی اکثر مثال دیتے "ساس نہ دامان، کڑی آپ پر دھان"۔ اس کے برعکس جب میں سارا دن اکیلے ڈرتے کانپتے گزارتی تو اپنی قسمت پر رشک کرنے والی اجنبی شہر کی اجنبی عورتوں کو حیرت سے دیکھتی رہ جاتی۔ میں جوائنٹ فیملی میں پلی بڑھی تھی اور محبتیں خلوص اور اتفاق دیکھا تھا۔

میں یہی سوچتی اگر جوائنٹ فیملی میں آہیں ہیں تو قہقہے بھی تو ہیں۔ ایک دوسرے سے تنگ ہیں تو کیا ہوا وقت پر ساتھ تو دیتے ہیں۔ بولنے کے لئے انسان تو میسر ہیں۔ میں صبح سے شام تک دیواریں تکتی ڈرتی رہتی، ہوا سے بھی دروازہ ہلتا تو دم حلق میں اٹک جاتا۔ میری تنہائیاں مجھے رونق کی طرف مائل کرتی رہتیں۔ ساس سسر کو کئی بار کہا کہ وہ ہمارے ساتھ آ کر رہنے لگیں مگر وہ اپنا آبائی گھر چھوڑنے پر تیار نہیں تھے۔

وقت کچھ آگے بڑھا ہم کچھ بہادر بھی ہوگئے اور تنہائی بھی جاتی رہی کہ اللہ پاک نے دو بچوں سے بھی نواز دیا مگر دل سے جوائنٹ فیملی کا ارمان نہ گیا کیونکہ طبیعت خراب ہو رہی ہوتی یا اٹھنے کی ہمت نہ رہتی پھر بھی روتے بلکتے بچوں کو خود ہی دیکھنا پڑتا۔ سر چکرا رہا ہوتا اور بچہ ضد کرتا کہ بھنڈی ہی کھانی ہے تو علیحدہ رہنا عذاب لگتا۔ دکھ میں بھی تنہا سکھ میں بھی تنہا سخت مشکل معاملات میں بھی تسلی کے دو بول نصیب نہ ہوتے یہی سمجھا جاتا اکیلے ہیں تو بس عیش کرتے ہیں۔

ستم لوگ یہ ڈھاتے اکیلے کئے ہوئے کسی کام کو نہ مانا جاتا نہ سراہا جاتا۔ بس ہم اپنے تنہائی پر کڑھتے۔ لیکن وقت کا کام ہے اچھا برا واضح کرنا جوں جوں وقت گزرتا گیا شعور آتا گیا۔ معاشرے میں عدم برداشت بڑھا معاشرتی اقدار بدلیں لوگوں کا زاویہ نگاہ تبدیل ہوا اور پرائیویسی کی دھوم مچی تو سوچ بھی بدلی پھر جوائنٹ فیملی والوں کو اکتایا ہوا بیزار دیکھا، نفرتیں کدورتیں بچوں تک میں دیکھیں۔ ساتھ رہنے والوں کو بھی ایک دوسرے کی مدد کے لئے ترستے دیکھا بلکہ آپس میں تقابل کی فضا دیکھی احساس برتری اور احساس کمتری میں مبتلا بچے دیکھے، ان کی زندگی کو دوسروں کے فیصلوں کا محتاج دیکھا۔

یوں تعلقات بڑھتے گئے تو مشاہدات میں بھی اضافہ ہوا ہم نے دیکھا کہ ہمارے وقتوں کی باتیں تو اب دھول ہوئیں۔ تقریباََ ہر ساتھ رہنے والوں کو شکوہ کناں اور عجیب سے دباؤ میں پایا۔ بہت کم نظر آیا کہ بڑا چھوٹے سے اور چھوٹا بڑے سے خوش ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے بیزار اور کاٹ میں مگن ہے۔ کہیں گھر کے اخراجات کو لے کر جھگڑے ہیں تو کہیں ماں باپ کی ادویات کے خرچے پر بحث ہے۔

کہیں پر طعنوں تشنیوں کی آوزایں ہیں تو کہیں گھٹی گھٹی آہیں اور سسکیاں اور قہقہے بھی ہیں تو آنسوؤں میں بھیگے ہوئے ہیں۔ خوشیاں بھی مصلحت اور منافقت میں لپٹی دیکھی تو خوب توبہ کی اور دل شکر کے سجدے کرنے لگا کہ اللہ پاک نے ان چیزوں سے بچائے رکھا مجھے علیحدہ گھر کے سکھ کی نعمت سے نوازا اور میں نا شکری کرتی رہی۔

Check Also

Aaj Soop Nahi Peena?

By Syed Mehdi Bukhari