Mulazmeen Ka Istehsal Band Keya Jaye
ملازمین کا استحصال بند کیا جائے
معاشرے میں استحصال کی بات ہو تو اس پہ آواز ضرور اٹھانی چاہیے چاہے وہ استحصال کوئی بھی طبقہ کر رہا ہو۔ آج میرا ٹاپک کارپوریٹ اور پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمین کا استحصال ہے۔ یہ سیکٹرز جس طرح اپنے ورکرز اور ملازمین کا استحصال کر رہے ہیں اس پہ بات ہونی چاہیے۔ اس میں سب سے اہم تو جاب سیکیورٹی یا جاب سیفٹی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں جس ادارے کا جب دل چاہتا ہے ملازمین کو اٹھا کے باہر پھینک دیتا ہے۔ ہائر کرنے کے اصول ہوں نا ہوں فائر کرنے کے کوئی اصول نہیں ہیں۔
عموماََ پرانے ورکرز اور ملازمین دن بدن مہنگے ہوتے جاتے ہیں ایک سطح پہ آ کے لگتا ہے کہ ان کی ایک تنخواہ میں آپ دو ورکرز رکھ سکتے ہیں، ٹیلنٹ کی نہ تو کسی کو ضرورت ہے نا فکر گردن پہ بندوق رکھ کے کام نکلوا ہی لیا جاتا ہے۔ دوسری بڑی مصیبت ورک لوڈ اور جاب ٹائمنگز کی ہیں۔ بینکرز بلا تفریق شام چھ، سات بجے سے پہلے گھر نہیں جاتے غضب خدا کا دس دس گھنٹے کی نوکری میں آپ ان کو نچوڑ رہے ہیں، ان کی صحت تباہ کر رہے ہیں اس کے بعد جاب سیفٹی بھی کوئی نہیں۔
تیسرا بڑا مسئلہ پیمنٹس کا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹرز میں اب آٹھ گھنٹے کے بعد کے وقت کو اوور ٹائم شمار کر کے اس پہ ایکسٹرا پیمنٹ بھی نہیں دی جاتی۔ میں اس سلسلے میں آج کچھ مطالبات پیش کر رہی ہوں۔ جن میں سب سے پہلے تو یہ کہ لیبر لاز کی عملداری ممکن بنائی جائے اور کارپوریٹ سیکٹر کو پابند کیا جائے کہ وہ ان لاز کی ہر حال میں پاسداری کریں گے، جن میں
1۔ ورکرز کو جاب سیفٹی فراہم کی جائے انہیں کسی بھی وقت نوکری سے نکالے جانے کے خوف جیسی غیر یقینی صورتحال سے نکالا جائے۔ ہائر اور فائر کرنے کا باقائدہ لائحہ عمل ہو۔ کسی کو شو کاز نوٹس دیے بغیر فارغ نہیں کیا جا سکے۔ اس پہ الزامات کو ثابت کیا جائے اور اسے اپنے دفاع کا بھرپور موقع دیا جائے۔ اس سے دفاتر میں ملازمین کی ایک دوسرے کے خلاف سازشوں، شکایات اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے جیسی حرکتوں کا سدباب ہو سکے گا۔
2۔ جاب ٹائمنگز 8 گھنٹے فکس کیے جائیں اس سے اوپر ہر گھنٹے کی ایکسٹرا پیمنٹ ہو۔ کسی بھی ملازم کو مجبور نہ کیا جائے کہ وہ آٹھ سے زیادہ گھنٹے کام کرے اگر وہ اپنی مرضی سے کام کرتا ہے تو اسے ایکسٹرا پیمنٹ کی جائے۔
3۔ جن دفاتر میں خواتین ورکرز بھی کام کر رہی ہیں وہاں ڈے کئیر کی سہولت لازمی مہیا کی جائے تاکہ وہ اپنے چھوٹے بچوں کو باآسانی جاب پلیس پہ لا سکیں۔
4۔ خواتین ورکرز کو ان کی استطاعت کے مطابق کام دیا جائے۔ پچھلے دنوں ہماری ایک قابل صحافی نے ایک چینل کے لیے جلسے کی کوریج کرتے ہوئے جان کی بازی ہاری۔ سمجھ سے بالاتر ہے خواتین کو کرینز میں بٹھا کے لٹکا کے، چلتے ہوئے کنٹینرز کے پیچھے دوڑا کے اور اس پہ چڑھ کے کوریج کرنے جیسی ڈیوٹیز دینے والوں کو احساس ہے کہ خواتین کی جسمانی استطاعت اتنی ہے بھی یا نہیں؟
5۔ خواتین ورکرز کو تین ماہ کی میٹرنٹی لیو کا قانون اور اس قانون پہ سختی سے عمل درآمد ممکن بنایا جائے مجھے یاد ہے جب میں ایک بہت بڑے کالج میں جاب کرتی تھی وہاں لاہور سے ایک پرنسپل صاحب بھیجے گئے جنہوں نے ہماری دو کولیگز خواتین کو میٹرنٹی لیو تو کیا ایکسٹرا ڈیوٹیز میں ریلکسیشن تک نہیں دی تھی، ایک کولیگ تو کالج سے سیدھا ہسپتال پہنچیں ان کے یہاں چند گھنٹے بعد بیٹی پیدا ہوئی۔ ایک اور کولیگ کے آپریشن میں مسائل ہوئے مگر انہیں پندرہ دن بعد کالج ری جوائن کرنے پہ مجبور کیا گیا ورنہ نوکری سے ہاتھ دھوتیں۔
6۔ اپنے ورکرز کو ڈویلپ کریں ان کو سال میں ایک بار ورکشاپس کروائیں۔ میں نے بنک اور میڈیکل ریپ کے علاؤہ کہیں نہیں دیکھا کہ انہوں نے اپنے ملازمین کو پالش کیا ہو۔ خاص طور پہ میڈیکل ریپ عام سے معمولی دیہاتی لڑکے چند ماہ بعد اتنی اچھی شخصیت کے مالک بن جاتے ہیں ان کا پہننا اوڑھنا، بات کرنا، سب بدل جاتا ہے۔ ناصرف یہ بلکہ وہ ہر کچھ عرصے بعد بڑے شہروں کے بڑے ہوٹلوں میں ان کی ورکشاپس کرواتے ہیں ان کی ٹریننگ کے ساتھ گرومنگ بھی ہوتی ہے جو ان کی قابلیت اور اعتماد میں اضافے کا باعث ہے۔ قابل، ٹرینڈ ورکر آپ کے اپنے بزنس کا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ اگر آپ سمجھیں۔
7۔ تمام ورکرز کو سال میں ایک ہفتہ سیاحتی چھٹیاں بھی دی جائیں یہ ورکرز میں ری فیولنگ کا کام کریں گی ان کی استعداد کار بڑھائیں گی۔
ورنہ آپ معاشرے کو کمزور، بیمار، ذہنی طور پہ الجھے ہوئے، پریشان حال، تھوڑے ہی عرصے میں پھٹیچر، بیمار اور تیزی سے بوڑھے ہوتے افراد کے علاؤہ کیا دے رہے ہیں۔ ورکرز آپ کو کیا دے رہے ہیں؟ اس کے ساتھ یہ بھی سوچیں کہ آپ ورکرز کو کیا دے رہے ہیں؟ آپ کے ادارے نے ان کی شخصیت، معیشت، سٹیٹس بہتر کرنے پہ کتنا کام کیا ہے؟ اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ پرائیویٹ اور کارپوریٹ سیکٹرز کو پابند کرے کہ وہ لیبر لاز کی پاسداری کریں۔