Christmas Aur Hamari Zimadari
کرسمس اور ہماری زمہ داری
پاکستان جب معرضِ وجود میں آیا تو اس میں صرف مسلمان ہی اکثریت میں نہیں تھے بلکہ دیگر مذاہب بھی کافی تعداد میں موجود تھے مثلاً ہندو، سکھ، پارسی، عیسائی وغیرہ وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے جھنڈے میں سفید رنگ اقلیت کی عکاسی کرتا ہے۔ بابائے ملت قائد اعظم اپنے خطبات میں اس بات کا اعلان کرتے رہتے تھے پاکستان ایک ایسا ملک ہوگا جہاں تمام مذاہب کو ان کی شخصی و مذہبی آزادی ہوگی۔
"آپ آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں مسجدوں میں اور جس بھی مذہب، ذات سے آپ تعلق رکھتے ہیں، اپنے عبادت گھروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں اور اس بات کا ریاست کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں"۔ فرمودات قائد 11 اگست 1947۔
ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔ اس وقت جو موضوع زیر بحث ہے اس کے تحت دیکھا جائے تو اسلام جبر کا قائل نہیں ہے۔ اسلام ہر ایک شخص کو اس کے مذہب کو اپنانے اور اس پر عمل کرنے کی پوری آزادی دیتا ہے۔ دین اسلام ہمیں اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ بجائے ڈنڈے کے زور پر یا زبردستی کسی کو اسلام کی طرف راغب کیا جائے، اپنے اچھے اخلاق سے اور اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ان کو اس طرف راغب کیا جائے۔ حضرت محمد ﷺ نے زورِ تیغ کسی کو مسلمان نہیں کیا بلکہ اپنے حُسنِ اخلاق سے اسلام کی اشاعت کی تھی۔ حضرت عمر کا ذاتی مشیر آپ کی زندگی تک عیسائی ہی رہا آپ نے اس کو مسلمان ہونے کے لیے اپنی زندگی میں کبھی بھی زبردستی مجبور نہیں کیا تھا۔
اب بات آتی ہے دین کے حوالے سے، تو ہمارا دین اس بات کی قطعی طور پر اجازت نہیں دیتا کہ غیر مسلوں کے ساتھ مل کر یہ تہوار منایا جائے۔ جو شخص جس قوم کی مماثلت اختیار کرئے گا روز محشر وہ انھی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ فرمان رسول اللہ ﷺ ہے "جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ ان میں سے ہے"۔ ابو داؤد شریف حدیث نمبر 4031
عیسائی برادری کو اپنے اس تہوار کو منانے کی پوری آزادی ہونی چاہیے۔ جیسے ہم بلا جھجک و خوف اپنے سب تہوار مثلاً عید الفطر، عید الاضحی کی خوشیاں مناتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے ملک میں بسنے والی اقلیتوں کو بھی اپنے ان حقوق کے استعمال کا پورا پورا اختیار ہونا چاہیے۔ ہمیں اس کو معیوب نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہمارے دل و دماغ اتنے وسیع ہوں کہ ہمارے اچھے اخلاق کو دیکھ کر اگر کوئی اپنا مذہب تبدیل کرکے مسلمان ہونا چاہیے تو ہم اسے کھلے دل سے قبول کریں۔
کرسمس کے حوالے سے ہماری اخلاقی ذمہ داری یہ ہو سکتی ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اس چیز کو برا جانیں اور اپنے بچوں کے عقائد اس لحاظ سے مضبوط کریں کہ "اللہ ایک ہے وہ بے نیاز ہے اور اس کا کوئی ہمسر نہیں، نہ اس کے ہاں کوئی اولاد ہو سکتی ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے"۔
اپنے بچوں کو شروع سے اس چیز کی ترغیب دلائیں کہ ہمیں اس تہوار کو کسی بھی قسم کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں دینی نہ سمجھنی ہے۔ مگر ایک باشعور مسلمان، پاکستانی اور امت محمدیہ کا فرد ہونے کے ناطے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ایسی کسی بھی تعصب نظری، مذہبی جبریت کا اظہار نہ کریں کہ جس سے اسلام کی غلط تصویر غیر مسلم برادری کے سامنے پیش ہو۔ جس کی بدولت وہ اسلام کی طرف راغب ہونے کی بجائے مزید اس سے دور ہو جائیں۔

